ڈیجیٹل میڈیا اور ہم ۔| تحریر: مبینا خان
جہاں اس میڈیا سے ہمیں بے شمار معلومات ملتی ہیں وہاں ایک طرف اس کاا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کا غلط استعمال بھی کر رہے ہیں نہ صرف کم عمر لڑکے بلکہ بڑی عمرکے مرد اور خواتین بھی اس کی وجہہ سے بے راہ روی کا شکار ہیں۔ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ہیں کہ ہمیں اب تک اچھے برے کی تمیز کرنا نہیں آئی ، نہ عورت کو اپنی عزت و آبرو کی فکر ہے نا مرد کو اپنی عمر کا لحاظ۔
ذرا سوچیں کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں سوشل میڈیا پر نا زیبا تصاویر وڈیوز اور نہ جانے کیا کیا واہیات اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں ۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے جن کو جانتے نہیں جن سے واسطہ نہیں ہم ان سے وہ وہ باتین ساجھتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
کیا ہم مسلمان کہلانے کے لائق ہیں یہ سوال ہر روز اپنے ضمیر سے ضرور پوچھنا بنتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دسترس میں جدید ٹیکنالوجی دی ہے لیکن افسوس اس جدید ٹیکنالوجی کو کچھ بے ضمیر لوگ غلط استعمال کرکے نہ صرف لوگوں کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ وطنِ عزیز کے دامن کو بھی داغ دار کر رہے ہیں ۔ جس وجہ سے ہمیں مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
آج کل کچھ بے حیا عورتیں غیر مرد کے ساتھ ویڈیو کالز پر نا زیبا حرکتیں کرتی ہیں یہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کیا یہ کسی کی بیوی کسی کی بہن یا کسی کی بیٹی کہلانے لے لائق ہیں ہرگز نہیں مجھے تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی خواتین کے گھر والوں نے کیسی تربیت کی ہوگی کہ وہ اس بے حیائی کی راہ پر چل نکلیں ۔
اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے بعض اہم تدابیر کو اختیار کرنا ضروری ہے‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں
قرآن مجیدمیں مذکور نصیحتوں پر عمل کرنا
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں پر برائی کی مذمت کی ہے وہیں پر ایک مستقل سورت‘ سورہ نور کا نزول برائی کی روک تھام کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سورہ نور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی ایسی باتیں بتلائی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر یقینا معاشرہ برائی سے بچ سکتا ہے۔ جن نکات کو سورہ نورمیں بیان کیا گیا ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے
مرد اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھیں
عورتیں اپنی نگاہوں کو جھکائیں اور اپنے وجود کو ڈھانپیں
بے نکاح لوگوں کا نکاح کیا جائے
کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے
ظہر اور عشاء کے بعد اور فجر سے پہلے گھریلو کمروں میں ملازم اور بچے بغیر اجازت داکل مہ ہوں
عورتوں پر تہمت لگانے والوں کو اسّی کوڑوں کی سزا دی جائے
برائی کا ارتکاب کرنے والے غیر شادی شدہ مرد اور عورت کو سو (100)کوڑوں کی سزا دی جائے۔ (احادیث میں شادی شدہ کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے)
والدین کی ذمہ داریاں
معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے خاتمے کے لیے والدین کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں اور اپنی اولاد کی معاشی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اولاد ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہے جس کا ضائع ہو جانا یقینا تمام وسائل کے ضیاع سے بڑا نقصان ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اولاد کی تربیت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ قابلِ اعتراز لٹریچر اورسوشل میڈیا پر چلنے والے کچھ مواد کی وجہ سے نوجوانوں میں مغربی آزادی کی طلب بڑھ چکی ہے ۔ منہ زور جوانی کے نشے میں دھت لڑکے اور لڑکیاں والدین کی نصیحتوں کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ والدین ان تمام معاملات کو ناگوار سمجھنے کے باوجود اپنے بچوں کے احتساب پر قدرت نہیں رکھتے۔ اگر والدین بچوں کوشروع ہی سے وقت دیں اور ان کے معمولات اور دوستیوں پر نظر رکھیں تو یقینا معاشرے کو بے راہ روی سے بچایا جا سکتا ہے۔