قوم کی تقدیر ،دعائیں وخواہشات ،تدبیر ندارد۔ | تحریر: سید محبوب احمد جشتی
اجتماعی کوششوں، مثبت سوچ، اور قوم کی تقدیر کی تشکیل میں کام کی اہمیت پر زور دینا ہی محب وطن کی اولین ترجیج ہوتی ہے نہ جانے کیوں ہم کو یہ یاددہانی بار بار کرانی پڑتی ہے کہ صرف خواہش مند سوچ کا کافی ہوناضروری نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک قوم کے لوگوں کے اجتماعی عمل اور طرزفکر ہے جو بامعنی تبدیلی اور ترقی کو آگے بڑھاتی ہے۔
پاکستان میں ساری جماعتیں بہت اچھی ہیں اسی وجہ سے ملک ترقی پرترقی کررہاہے سب کو موقع چاہیئے حکومت واپوزیشن میں آنے کا،سیاسی جماعتیں اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے اور مزید سنوارنے کے لیئے اثاثوں میں اضافے کو ردکرتے ہوئے اتنی محنت کرتی ہیں کہ آج میرا وطن ایک سپرپاور بن چکا ہے اور اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتاہے گیس ،بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے لیئے اعلیٰ جدید نظام کے ذریعے عوام الناس کو ان کی دہلیز پرریلیف دینے کے لیئے سیاسی جماعتوں کے درمیاں رسہ کشی جاری ہے بے حسی ،بے ضمیری نام کی فرعونی ،نمرودی ،شدادی طرزفکر ہمارے ارباب اختیار میں دور دور تک نظرنہیں آتی ہے۔
انقلابی طرزفکرگھٹی میں پلائی گئی ہے سیاسی تربیت کی کیا بات جائے ایک سے ایک بڑھ کرگوہرنایاب ہرسیاسی جماعت میں موجودہے مسائل تو اس ملک میں دور دور تک نظرنہیں آرہے ہیں شایداسی وجہ سے سیاسی جماعتیں چین کی بانسری بجارہی ہیں چونکہ بجلی،گیس کی لوڈشیدنگ نہیں ہے پیارے وطن کو سیاسی جماعتوں نے بام عروج پرپہونچادیا ہے شایداسی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں غریب ہوتی جاری ہیں اثاثے ختم ہوتے جارہے ہیں سیاسی جماعتوں نے خود کوآزمائش میں ڈال کر اس ملک کو آزمائشوں سے نکالا ہے پوری دنیا میں ہمارے پیارے وطن کی بات ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کی ہرحکومت خودار ہے جب بھی کوئی سیاسی جماعت برسراقتدار آتی ہے تو وہ اپنی آسائشوں کو پس پشت ڈال کر صرف عوام کے نام پر لیئے جانے والے قرضوں کو انکی فلاح وبہود پر اسطرح سے خرچ کرتی ہے کہ عوام تک کو پتا نہیں چلتا کب حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ بنیادی سہولیات انکی زندگی کا حصہ بن گئی ہیں میرے پیارے وطن پاکستان میں ارباب اختیار کی نیک نیتی اسقدر صاف ہے کہ اسکا براہ راست اثر اسطرح سے پڑتا ہے کہ ہرآنے والا وزیراعظم آئی ایم ایف پروگرام ملنے پر قوم کو خوشخبری سے تشبیہ دیتا ہے چلیں کچھ سنجیدہ ہوجاتے ہیں ابتدائی سطور سال نو کے آغاز پر دعائیہ سطور سمجھ کر( آمین یارب العالمین) کہہ کرآگے بڑھتے ہیں۔
سال 2024ء گزر گیا، اچھا ان کے لیئے جن کے پیٹ اور خزانے دونوں بھرے ہوئے ہیں اور برا ان سب کے لیئے تھا جو پچھلے کئی ادوار سے ان ارباب اختیار کو ووٹ دیتے رہے اور بنیادی سہولیات کو ترستے رہے ،شہرقائدکے باسیوں کی کیا بات کریں ایسالگتاہے جب سے ان سے انکی من پسند چیزواپس لی گئی ہے وہ ہرچیزسے بیگانے ہوگئے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ پرخاموشی،گیس کی بندش پرخاموش ،ٹوٹی سڑکوں ،سیوریج پرخاموش ،بلدیاتی اداروں کی مسلسل بگڑتی صورتحال پرخاموشی،غرض خاموشی ایسی کہ سب سے زیادہ ریونیودینے والا شہر اس بات سے بھی غافل ہوگیا ہے وہ وسائل تو پورے ملک کو دے رہا ہے لیکن مسائل اپنی جگہ موجود ہیں وجہ یہی ہے کہ انفرادی سوچ اجتماعیت پر حاوی ہوگئی ہے ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنا کیوں ہمارے حکمرانوں کے لیئے مشکل ترین ہوتاجارہاہے یوں تو پاکستان سے اور کراچی سے محبت کرنے والے کروڑوں میں ہیں لیکن جب میں چاروں صوبوں کی جانب دیکھتا ہوں تو میراملک پورا کا پورا قرض دار ہے یہ کیسی محبت ہے اپنے ملک اور اسکی عوام سے کہ ارباب اختیار قرضہ قوم کے نام پرلیتے ہیں لیکن قوم کو بنیادی سہولیات تک نہیں دے سکتے ہیں یعنی فیصلہ کیا جائے ان حکمرانوں کو وطن سے پیار ہے یا ملک کی عوام کے نام پرلیئے گئے پیسوں سے محبت ہے موجودہ سیاسی صورتحال پر چندسطور مزید لکھنے کی دل نے خواہش ظاہرکی تو لکھے بغیر رہ نہ سکے پیشگوئی کرنے کی عادت تو نہیں ہے لیکن ان سطور میں تجزیاتی طرزفکر کو شامل کرنے سے یہ مشکل آسان ہوگئی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے اور تاریخ شاہدہے کہ آج تک کسی بھی وزیراعظم نے اپنی حکومتی مدت پوری نہیں کی وجوہات کچھ بھی ہوں یہ الگ درناک زمینی حقائق ہیں کہ گزشتہ 77 سال میں پاکستان کا کوئی بھی منتخب وزیراعظم پاکستان اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہیں کرسکا ہے موجودہ سیاسی صورتحال میں اب غیریقینی صورتحال ختم ہوتی نظرآرہی ہے اگرملک کے وسیع تر مفاد میں کیئے گئے فیصلے اپنے اناکے بتوں کو توڑ کیئے گئے تو 2025ء بلاشبہ پاکستان کے لیئے خوشحالی کا سال ثابت ہوسکتا ہے۔یعنی دوسروں معنوں میں یہ کہا جائے کہ محض دعائوں وخواہشات سے قوموں کی تقدیریں نہیں بنتی ہیں اجتماعیات،بلارنگ ونسل انصاف سے پاکستان ایک عظیم ملک بن سکتاہے مثبت سوچ سے اس ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کیا جاسکتا ہے اللہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کا حامی وناصرہو(آمین)