باکومیں موسمیاتی ایجنڈے کا تماشا۔ | تحریر: مظہر اقبال مظہر
گزشتہ ہفتے تیل و گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک، فاسل توانائی کی طاقتور کمپنیوں کے نمائندوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت شدید نقصانات اٹھانے والے ترقی پذیر ممالک کے درمیان ایک چوہے بلی کا کھیل جاری تھا۔ اس کھیل کو ماحولیاتی کارکنان کے احتجاج نے مزید دلچسپ بنا دیا تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ گزشتہ سال عالمی موسمیاتی ایجنڈے پر جو اتفاق رائے ہوا تھا، وہ اس سال محض ہوا میں تحلیل ہوتا دکھائی دیا۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ باکو میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں اختلافات میں اضافہ ہو چکا ہے، اور وہ عالمی مالیاتی معاہدہ جو طویل عرصے سے زیر غور تھا، اب مذاق بن چکا ہے۔
اس اجلاس کا ایجنڈا واضح تھا: سب کو اس بات پر متفق ہونا تھا کہ ترقی یافتہ امیر ممالک غریب ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کتنی رقم فراہم کریں گے۔ یہ مطالبہ ان ممالک کی جانب سے مسلسل اٹھایا جا رہا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک، جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے ہیں، اس نقصان کو کم کرنے کی عالمی کوششوں کا حصہ بنیں اور اس ماحولیاتی تباہی کا ازالہ کریں۔
مگر اس معاملے پر کسی بڑے مالیاتی پیکیج پر متفق ہونا ان مذاکرات میں انتہائی کٹھن ثابت ہوا۔ ہمیشہ کی طرح، اختتامی اعلامیے کے کئی ڈرافٹس کانفرنس ہال کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے ہوا میں تحلیل ہوتے رہے۔ کئی بار تو پچھلے ڈرافٹس پر اس لیے بحث ہوتی رہی کہ سالانہ اعداد و شمار میں کیا شامل کرنا ہے اور کس ملک نے کتنا حصہ ڈالنا ہے۔ یہ ایک پتلی تماشہ تھا جس میں مختلف معاہدوں کی کاپیاں مختلف ہاتھوں میں کھیل رہی تھیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے عالمی نقصانات پر نظر رکھنے والے اقتصادی ماہرین نے حال ہی میں یہ بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اس دہائی کے اختتام تک کم از کم ایک ٹریلین ڈالر سالانہ درکار ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ جن کے ہاتھ میں اس کانفرنس کی ڈور ہے، وہ اس رقم کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اگر انہیں یہ رقم تیل کے کنوؤں کے لیے جمع کرنی پڑے، تو یہ پلک جھپکتے ہی ہو جائے گی۔
گزشتہ سال اسی سطح کے مذاکرات میں سب نے سینہ تان کر اعلان کیا تھا کہ اب دنیا کو توانائی کے روایتی ذرائع، یعنی تیل اور گیس سے دور ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر ان بارہ مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ الٹی گنگا بہنے لگی؟ تیل کی معدنی دولت سے ان ممالک کا تعلق اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ عالمی موسمیاتی سربراہی اجلاس کے میزبان آذربائیجان کی حمایت کے ساتھ سبھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ بظاہر ہر کوئی آذربائیجان سے ناراض دکھائی دیتا ہے مگر اندرون خانہ ان سے ملا ہوا لگتا ہے۔ ایسے حالات میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی غنڈہ گردی پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
یہ عالمی سطح کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے والا گروہ “ہم خیال گروپ” کہلاتا ہے، جس میں سعودی عرب، چین، بھارت اور بولیویا جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل صرف ان عالمی غنڈوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا، بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ چالباز وہ لابیاں ہیں جو تیل و گیس کی اجارہ داری کی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس طرح کے ہر اجلاس میں گھس آتی ہیں۔ ان کمپنیوں کے مفادات کے علاوہ باکو پر یہ الزام بھی ہے کہ اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کا تیل باکو سے ترکی اور پھر اسرائیل پہنچ رہا ہے۔
ادھر ماحولیاتی کارکنان بھی خاموش بیٹھنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے اس سربراہی اجلاس میں دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے۔ کچھ آرٹسٹوں نے ایک دیو قامت سانپ کی شکل بنائی، جو کوپ کے منتظمین سے یہ مطالبہ کرتا رہا کہ وہ فاسل ایندھن کی صنعت کے “سانپوں” کو نکال باہر کریں، جو ان مذاکرات میں 1,700 سے زائد لابیسٹ بھیج چکے تھے۔ اسی طرح ان مظاہرین نے دنیا بھر سے قتل ہونے والے ماحولیاتی کارکنوں کی تصاویر کی نمائش بھی پیش کی۔
اسی دوران، آذربائیجان کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان مظاہرین نے سیٹوں کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپ کر “ادائیگی کرو” کے الفاظ ترتیب دیے، جو اس دلیل کی طرف اشارہ تھا کہ آلودگی پھیلانے والوں کو موسمیاتی بحران کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔ اور جیسے ہی کوپ 29 کے مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں پہنچے، ان کارکنوں نے بڑی بڑی کمپنیوں اور تیل کے ٹھیکیداروں کے نمائندوں کا روپ دھارا اور جعلی کرنسی کی بوریاں بھر کر لے آئے۔ اس تماشے کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ان جعلی نمائندوں میں جو سب سے زیادہ قدرتی ماحول کو برباد کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا، اسے اتنا زیادہ جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اس علامتی شو کا مقصد ان عالمی غنڈوں اور بدمعاشوں کو نقصانات کے ازالے پر آمادہ کرنا نہیں تھا، بلکہ انہیں ان کی بے حسی کا احساس دلانا تھا۔