نادیہ حسن کی تصنیف: “نیلا قالین”۔ | تبصرہ: تہذین طاہر
”نیلا قالین“ نادیہ حسن کی پہلی کتاب ہے۔ جبکہ وہ پندرہ سال کی عمر سے لکھ رہی ہیں۔ اب تک ان کی کئی کہانیاں منظر عام پر آ چکی ہیں۔”نیلا قالین“ کتاب دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ نادیہ حسن لکھتی ہیں
” کہا جاتا ہے بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کا روشن مستقبل انہی کے مرہون منت ہے۔ بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنا، ان کو بری عادتوں سے آگاہ کرنا اور دور رکھنا ہی ہماری اولین ترجیح ہے۔ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں ماحول کا اثر بہت جلد لے لیتے ہیں، ان کی اصلاح اور تربیت کی جائے تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ بس یہی سوچ میری ہر کہانی لکھنے کی وجہ بنی۔ جب بھی میں کہانی کا موضوع سوچتی تو اردگردنظر ڈالتی، اگر کوئی بات غلط نظر آتی تو اس کی مذمت پر کہانی لکھتی تاکہ نئی نسل اس سے اجتناب کر سکے اور اگر بات اچھی لگتی تو اس کی تعریف میں کہانی لکھتی تاکہ اس سے متاثر ہو کر دیگر لوگ بھی عمل کریں“۔
بے شک بچوں کے لیے لکھنا ایک مشکل عمل ہے لیکن اگر مقصد بچوں کی بہتر تربیت اور انہیں اچھے بُرے کاموں سے آگاہ کرنا ہوتو تو موضوعات مل ہی جاتے ہیں بس ذرا سی نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
نادیہ حسن صاحبہ نے اپنی اس پہلی کتاب کا انتساب اپنے والد محترم کے نام کیا۔ جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ یہ ان کی رہنمائی کی، انہیں ہمت اور حوصلہ دیا، مشکلات سے لڑنا اور جینا سیکھا۔ بے شک باپ کا سایہ ایک ایسی عمارت کی طرح ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو ہر طرف کے طوفان، اندھیری، بارش، گرمی، سردی، سے بچاتا ہے۔
کتاب میں 23 کہانیاں موجود ہیں۔ ہر کہانی اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئے ہے۔ کئی کہانیاں پڑھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ جن موضوعات پر کہانیاں رقم کیں ان میں شامل ہیں”آخری تاریخ، غیبی طاقت، شکر قندی، چوری، مقابلہ، اپنی مدد، حسن ظن، ایک سال بعد، یہ ڈاکٹر لوگ، بیٹا، تھوری دیر بعد، چاند رات، ایک بڑھیا کی کہانی، نیلا قالین، یاد ماضی، دیہاتی پولیس، ایک رات، دو دکانیں، سوچا کسی نے!، چھان بورے والا، نو دن، میں بےچارہ موبائل، مومنہ اور فضہ۔
محترمہ نے کہانیاں لکھتے وقت بچوں کی دلچسپی کو خاص طور پر مدنظر رکھا ہے۔ کتاب کے عنوان”نیلا قالین“ پر بھی کہانی موجود ہے۔ جس میں ایک غریب بچے کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ ایک نیلے قالین نے بچے کو دن رات محنت کرنے پر اکسایا اورہر گزرتا دن بچے کے لیے ترقی کی راہِ کھولتا چلا گیااور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب بچے نے اپنی محنت سے اپنی منزل کو پا لیا۔ محنت کرو تو کیا ہو سکتا نہیں۔ ایسا ہی کچھ اس کہانی میں بھی ہوا۔ ایک نیلے قالین کی وجہ سے اسے تھپڑ کھانے پڑے تھے اور آج وہی بچہ قالین کی فیکٹری کا مالک بن گیا۔ اور اس فیکٹری میں بننے والی قالین کی مانگ بیرون ممالک تک ہونے لگی۔میری نظر میں یہ ایک موٹیویشنل کہانی ہے۔ جن بچوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیںکر سکتے ، ناکارہ ہیں بے کار ہیں۔ تو دراصل وہ سب سے زیادہ لائق اور ہونہار ہوتے ہیں ۔وہ چاہیں تو کیا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا بچوں کو ڈی گریڈ نہ کریں ان کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ زندگی کو کھل کر جی سکیں۔ اوریہ بات ہمیشہ یاد رکھیں آئن سٹائن کو سکول سے اس لیے نکالا گیا کیونکہ وہ ایک نالائق اور ناکارہ بچہ تھا۔ جبکہ اس کی ماں نے اسے دنیاکے سامنے مثال بنا دیا۔ اس لیے جب بھی کوئی بچہ یا نوجوان مایوسی کے گھپ اندھیرے کی طرف جانے لگے تو اردگرد کے لوگ اس کے لیے چراغ بن جائیں تاکہ وہ اندھیرے میں گرنے سے بچ جائے ۔ بچوں کا حوصلہ بڑھائیں۔ انہیں ایسی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جن سے ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی گزارنے کے ہنر سے بھی واقفیت ہو ۔
زیر نظر کتاب کو بہت خوبصورتی اور دلجمعی سے تیار کیا گیا ہے۔ ہر کہانی کے ساتھ ایک سکیچ بھی موجود ہے جو کتاب کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ کتاب کا سرورق بہت دیدہ زیب ہے۔کتاب کا سرورق ایک بار دیکھنے کے بعد کتاب کھول کر پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کتاب کے عنوان میں ایک سسپنس چھپا ہے۔”نیلا قالین“ کتاب کا سن کر میں خود سوچ میں پڑ گئی کہ اس نیلے قالین کا راز کیا ہے۔ جب کتاب کو ہاتھوں میں لیا تو تمام راز عیاں ہوتے گئے۔”نیلا قالین“ بس قالین نہیں تھا بلکہ میری زندگی کی سیڑھی پر وہ قدم تھا جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔اس کی ہر کہانی مجھے ایک نیا سبق دے رہی تھی۔
اگر میں کتاب کے پبلشر کی بات نہ کروں کو شاید میرا تبصرہ ادھورا رہے گا۔ پریس فار پیس کا ادارہ جس محنت اور تیزی سے نئے لکھاریوں کو منظر عام پر لا رہا ہے اتنی ہی تیزی سے کتاب دوست بھی بنتے جا رہے ہیں۔ یہ اس ادارے کی محنت ہی ہے کہ آج ہر دوسرا لکھاری خواہش رکھنے لگا ہے کہ تاریخ اسے یاد رکھے۔ یعنی اس کا نام بھی کسی کتاب کے سرورق کی زینت بنے۔ شکریہ پریس فارپیس۔ آپ کی محنت اور لگن سے ہی اچھے لکھاری دنیا میں متعارف ہو رہے۔”نیلا قالین“ کتاب 112 صفحات پر مشتمل ہے۔
تہذین طاہر