تسنیم جعفری کا سفرنامہ چین.| تبصرہ : قانتہ رابعہ

کہتے ہیں کہ دنیا کے آٹھ بڑے عجوبوں میں سے ایک دیوار  چین ہے۔ شاید یہ بتانے والے نے بس دیوار چین کی حد تک ہی چین دیکھا تھا۔

محترمہ تسنیم جعفری کے اس سفرنامہ چین کو پڑھ کر میں اس رائے پر پہنچی ہوں کہ پورے کا پوراملک  چین ، چینی قوم اور  چینی ثقافت بھی عجوبہ ہے۔

اب تک چین کے سفرناموں کی بابت بات ہوتی تو تو ذہن میں ایک ہی نام آتا تھا ” چلتے ہو تو چین کو چلئیے

مجھے یقین ہے جو بھی یہ سفرنامہ”یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے ” پڑھے گا وہ تادیر اسے یاد رکھے گا کہ سفر نامے کے نام پر اسے خشک ، قدرے بوریت پر مبنی جغرافیہ کی کتاب کی بجائے بے حد دلچسپ اور چین ، چینی عوام وہاں کی ثقافت اور رسم و رواج کے بارے میں   مفید معلومات پر مبنی سفر نامہ پڑھنے کو ملا۔

ویسے تو تسنیم جعفری ادب کے میدان میں آل راؤنڈر ہیں بالخصوص ادب اطفال میں ان کی تعمیری کوششوں کا زمانہ معترف ہے لیکن کہانی کار کہانی لکھتے ہوئے کہانی کے تقاضے پورے کرتا  ہے  جبکہ سفرنامہ میں سفرنامہ نگار اپنے دلی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔

اب وہ وقت دور نہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں چین چھایا ہوگا وہ کون سی صفات اور مہارتیں ہیں جنہیں اپنا کر چین نے پوری دنیا سے اہنا آپ منوا لیا ہے، کتاب میں اس کا بہت بھرپور تزکرہ ہے۔

کتاب میں چین جانے سے پہلے چین جانے کے لئے مطلوب کاغذی کاروائی اتنی مشکل ہے کہ میرے جیسی کا چین جانے کا شوق دم دبا کر بھاگ جائے ۔پاسپورٹ اور چینی سفارت خانے سے ویزہ کے حصول اور پھر چینی ائرلائن کے سفر تک کی داستان ذہنی اور جسمانی مشقتوں کی داستان ہے جو سہل پسندوں کو چین جانے سے پہلے دس دفعہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے لیکن چین پہنچ کر محترمہ تسنیم جعفری نے بیجنگ،چھاہو، شنگھائی چھنداو، پھنکو اور دیگر صوبوں میں کیا کیا دیکھا ۔وہاں کا فن تعمیر، وہاں کے طور طریقوں کے بارے میں جو کچھ جانا اپنی آنکھ سے جو کچھ دیکھا اسے  کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کروایا ،اسے پڑھنے کے بعد بے ساختہ دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی ان علاقوں کو دیکھ سکیں اور انقلاب کے بعد چینی عوام کی تبدیلی کے چشم دید گواہ بن سکیں۔

سفرنامہ کی درجن بھر خوبیاں ہیں جو اسے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتی ہیں ۔اشاعت اور طباعت تو اضافی خوبی ہے جس کا براہ راست مصنفہ/ مصنف سے تعلق نہیں ہوتا لیکن انداز تحریر میں یہ سفر نامہ بیک وقت جداگانہ انداز رکھتا ہے۔

مصنفہ کا سہل اور رواں انداز تحریر ان کی زبردست قوت مشاہدہ جو ہرعمارت اور ہر نئے منظر کو دیکھ کر دس طرح کے نتائج اخذ کرتی ہے۔

تسنیم جعفری کا انداز بیان گنجلک یا مشکل نہیں ادبی پیرائے میں ضرور لکھتی ہیں لیکن بہت دلچسپ اور کسی حد تک گھریلو۔

وہ دیوار چین پر جائیں یا بیجنگ کے ہاٹ پاٹ ریسٹورنٹ میں وہ وہاں سے متعلقہ ہر چیز کو سیاح کی نظر سے دیکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے قاری کو ہر دوسرے تیسرے صفحہ پر ایک نہ ایک نئی چیز پڑھنے کو ملتی ہے ۔وہ کتاب  جس سے قاری کے علم میں اضافہ ہو یا علم کی پیاس بجھانے کا سبب بنے کیا اس سے مفید کام کوئی اور ہوسکتا ہے

مثال کے طور پر وہ چین کے پانچ چھ ہفتوں کے قیام میں بیس بائیس ریسٹورنٹس میں جاتی ہیں اور ہر ریسٹورنٹ کے متعلق ایک نئی بات بتاتی ہیں۔

ابلا ہوا لہسن چینی قوم کس طرح کھاتی ہے ہر کھانے سے پہلے تیز ابلتے گرم پانی پینے میں کیا راز ہے ؟ زمزم ریسٹورنٹ جاتے ہوئے تیز چھاجوں برسنے والی بارش کا پانی سڑک پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی کیوں جمع نہیں ہوتا؟

گویا ہر جگہ ان کے لئے دبستان کھلنے کے مانند ہے۔

یہ سفرنامہ پڑھنے والے کے ذہن میں اٹھنے والے ہر سوال کا شافی جواب دیتا ہے۔

مجھے تجسس تھا کہ “چینیوں کے غیر چینوں سے کیسے تعلقات ہیں” کا پتہ چلے تو شالیمار ریسٹورنٹ میں جانے کی داستان سے تسلی بخش جواب مل گیا۔

سفرنامہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ سفر نامے کوادبی عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے لیکن یہ ابواب اتنے مختصر ہیں یا ممکن ہیں کہ( دلچسپی کی وجہ سےمجھے مختصر لگے ہوں )آپ پڑھنے کے دوران ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوسکتے۔

سفرنامہ سے مجھے بہت سی ایسی چیزوں کا علم ہوا جن کا مجھے قطعی علم نہیں تھا ۔مکڑیاں  اور مینڈک کھانے والی قوم انڈے بہت شوق سے کھاتی ہے۔

کئی مرتبہ تو انڈوں کا تزکرہ اتنا مزے کا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کے من حیث القوم انڈہ شناسی میں زیرو ہونے پر ندامت ہوتی ہے۔ سفرنامہ کا ایک حصہ بیجنگ سے گیارہ سو کلومیٹر دور حفے  کی روداد پرمشتمل ہے۔

چینی  “ھ  “کو  “خ  “بولتے ہیں تو حفے بھی خفے بن جاتا ہے۔

اس میں قیام کی روداد بہت دلچسپ ہے بلکہ سارا سفرنامہ ایک ہی سبق دیتا ہے۔ چینی ہر جگہ چھائے ہیں تو اس کی وجہ ان کی محنت ہے۔ محنت خالی کوئی کام نہیں آتی جب تک سونے جاگنے کے اوقات طے نہ ہوں۔ جلدی سونے جلدی جاگنے والی قوم کی خوردونوش بھی ابلتا پانی یے ساتھ میں سبزیاں کھانا چاہو تو دوچار منٹ اس پانی میں ڈبو کر ساس (چٹنی) کے ساتھ کھا لو ،نوڈلز کھانا چاہو تو وہی تیز ابلتے پانی کسی بھی ذائقے کی نوڈلز شامل کرو، ساس کے ساتھ کھالو۔۔وہی گرم پانی ابتدائیہ بھی ہے اور اختتامیہ بھی۔

یہ سفر نامہ شروع کرنا آپ کا کام ہے۔ مجھے یقین ہے اس کے بعد  سفر نامہ ختم کرنے سے پہلے آپ کے لئے ہاتھ سے رکھنا مشکل ہوگا۔

تسنیم جعفری نے اس سفرنامہ کے ذریعے اپنے آپ کو اردو ادب کی بہترین سفرنامہ نویسوں کی فہرست میں شامل کروایا ہے۔

جہاں جہاں اردوادب میں چین کے سفر نامے کا ذکر ہوگا محترمہ تسنیم جعفری کا یہ سفرنامہ

یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے، ان کے لئے حوالہ ثابت ہوگا۔

یہ سفر نامہ ہر سطح کے قارئین کے لئے دلچسپی کا حامل ہو گا۔
ان کے لئے جو چین جانا چاہتے ہیں انہیں چین جانے کے لئے کاغذی کارروائی سے لےکر چین میں پہنچنے تک خوب رہنمائی میسر ہوگی۔
ان قارئین کے لئے جوچین میں جا چکے ہیں ان کے لئے چین میں قیام کی بہترین یادیں وابستہ ہوں گی۔
ان کے لئے جو چین سے کسی قسم کی دلچسپی رکھتے ہیں ، معلومات سے بھرپور ہے۔
یہ سفر نامہ اس تتلی کی مانند ہے جو ہر اچھے پھول پر جاکر اس کا رس حاصل کرتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ چین کی اچھائیوں اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔

میں محترمہ تسنیم جعفری کو یہ خوبصورت سفر نامہ لکھنے پر پریس فار پیس پبلیکیشنز کو اس کی اشاعت پر اور ان کی ٹیم کو خصوصی طور پر اتنی عمدہ اور یادگار تصاویر سے مزین سفرنامہ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

کتاب کا ٹائٹل بہت خوبصورت طباعت عمدہ اور ہر کام معیاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link