انسان اور نبوّت کا تعلق۔ | تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
نبوّت کا آغاز انسان کے جنم کے ساتھ ہی ہوا۔ اس کائنات میں انسانیت اور نبوّت دونوں دو جڑواں بہن بھائیوں کی مانند ہیں۔ دونوں کی ابتدا ایک ساتھ ہوئی ۔ جیسے ادوار سے انسان گزرتا گیا ویسے دور کے مطابق نبوّت انسان کی ہدایت کرتی رہی۔ جب بھی انسان نے نبوّت سے دوری اختیار کی تو وہ زمینی و آسمانی آفات و بلیات کا شکار ہوا، انہی آفات و بلیات کو ہماری زبان میں عذاب کہا جاتا ہے۔ نبوّت کا انسان کو فائدہ ہی یہ ہے کہ اس کی پیروی کرنے سے انسان ہر طرح کے ضرر، برائی، بدبختی اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔
البتہ مسئلہ یہ ہے کہ خود انسان ہی انسان کیلئے سب سے زیادہ ضرر رساں ہے۔ تاریخ بشریت میں خود انسانوں نے ہی انسانوں پر جتنے ظلم کئے ہیں اتنے کسی دوسری مخلوق یا درندوں نے نہیں کئے۔انسان نے ہی انسان کو غلام بنایا اور انسان نے ہی انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کئے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبوّت ہمیشہ مستضعف، مظلوم اور کمزور انسانوں کے درمیان رہی۔ خدا نےنبوّت کو بادشاہوں، طاقتوروں، فرعونوں اور ظالموں کے خاندانوں میں نہیں رکھا۔ انبیا ہمیشہ کمزور انسانوں میں متولد ہوئے تاکہ انہیں طاقتور اور مضبوط بنا کر ظالم بادشاہوں اور طاقتور حکمرانوں کے جبرواستبداد سے نجات دلائیں۔
نبوّت نے ہمیشہ انسانوں کو انسان نُما درندوں سے اپنے حقوق لینے کیلئے جدوجہد کرنے کا پیغام دیا ہے۔ بظا ہر انسان پر اُس کا ماحول اور اُس کی تہذیب و ثقافت اثر انداز ہوتی ہے لیکن انبیا پر ماحول، اور تہذیب و ثقافت اثر انداز نہیں ہوئی بلکہ انبیا نے ہر دور میں مروّجہ ماحول نیز رائج تہذیب و ثقافت کی اصلاح کی اور انسانوں کیلئے ان کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک نئے اور منفرد تمدّن کی بنیاد رکھی۔
انسان کے اس تہذیبی و ثقافتی ارتقا اور تمدّنی ترقی کیلئے انبیا کو قربانیاں دینی پڑیں، ہجرتیں کرنی پڑیں اور درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں بدترین صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ بے گناہ، کمزور اور معصوم لوگوں کو طاقتور انسانوں کے ظلم سے نجات دلانے کیلئے کوشش و کاوش کی سزا کے طور پر انبیا کے ساتھ یہ سب کیا گیا۔ہر نبی کو اس کے دور کے طاقتوروں ، بادشاہوں اور زورآوروں نے باغی کے طور پر ہی اپنے مدِّ مقابل پایا اور بطورِ باغی ہی ان کے ساتھ سلوک کیا۔ مظلوم و مستضعف انسان آہستہ آہستہ نبوّت کے درس کو سمجھتا گیا اور یہ سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا گیا۔
نبوّت کا تولد انسان کے تولّد کے ساتھ ہی ہوا اور جب انسان کے بلوغ، ارتقا اور تکامل کا سلسلہ مکمل ہو گیا تو نبوّت بھی اپنی تکمیل کو پہنچ گئی۔ ۶۱۰ عیسوی میں جب ختم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں اپنی نبوّت کا اعلان کیا تو اس وقت دو بڑی مہذّب و متمدّن سُپر طاقتیں ایران اور روم کی شکل میں موجود تھیں۔ وسیع و عریض صحرا اور سنگلاخ چٹانوں نیز حد سے زیادہ موسمی گرمی و سردی کے باعث جزیرہ نمائے عرب کو یہ دونوں طاقتیں قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھتی تھیں۔ یہاں کے باشندے ایران و روم کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ تھے اور اپنے زمانے کے تقاضوں سے انتہائی عقب ماندہ۔ کوئی تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس پسماندہ اور عقب ماندہ خطّے سے ایک ایسا دین ابھرے گا جو ایران و روم کو فتح کر کے ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
اللہ کے آخری نبی ؐ نے اپنے سے پہلے مروّجہ ماحول، تہذیب و ثقافت اور تمّدن کو صرف ۲۳ سال کے قلیل عرصے میں یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اچھے اور برے، دوست اور دشمن، حلال اور حرام، عزت اور ذلت حتی کہ عبادت اور معبد کی میزان، شریعت، تصویر اور روح ہی تبدیل کر کے رکھ دی۔ ماضی میں پوجے جانے والے پتھروں کے بُت تھے یا شخصیات کے ، وہ سب کے سب پاش پاش ہو گئے۔ صرف تئیس سال کے بعد اگر کسی شخص نے جزیرہ نمائے عرب کا دورہ کیا تو وہ اس منطقے میں آنے والی تبدیلی کو دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکا۔ یہ تعجب فتح مکہ کے روز ابوسفیان کو بھی ہُوا تھا۔
اللہ کے آخری نبی کی نبوّت اور دیگر انبیا کی نبوّت میں ایک اساسی اور بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ باقی سب انبیا نے یہ تو کہا کہ ہمیں اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہے لیکن کسی اور نے یہ نہیں کہا کہ مجھے ساری دنیا کے لئے اور قیامت تک کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔
یوں ختمِ نبوّت کے اندر دو عقیدے جمع ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کی نبوّت قیامت تک کیلئے ہے۔ ان دو عقیدوں کو جمع کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ختمِ نبوّت کی شکل میں جو تعلیمات مکمل اور کامل ہوئی ہیں، انہیں قیامت تک کے انسانوں کے لئے ہمیشہ اپنی اصلی حالت میں انسانوں کے ہمراہ ہونا چاہیے۔ اب قیامت تک کوئی نبی تو نہیں آئے گا لیکن نبوّت کی تعلیمات کو محفوظ اور اصلی حالت میں باقی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ کے آخری نبی ؐنے اپنی وفات مبارک سے فقط چار دن قبل جمعرات کے دِن بسترِ بیماری پر اپنے اصحاب سے یہ تقاضا کیا کہ کاغذ قلم لاو تاکہ ایسی وصیت کروں کہ اس کی پیروی کرنے کی وجہ سے امّت ہرگز گمراہ نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے آخری نبی ؐ نے نبوّت کے خلاف کوئی وصیّت تو کرنی نہیں تھی اور نہ ہی قرآن مجید کی تعلیمات کے برعکس کچھ امر کرنا تھا۔پس جب اللہ کے آخری نبی کی وصیّت نہیں لکھی گئی تو اس کا سارا ضرر انسان کو پہنچا۔ یہ ضرر اللہ کے آخری پیغمبر کے بعد اسلام کے سُکڑنے اور مسلمانوں کے پھیلنے کی صورت میں سامنے آیا۔ بعد ازاں نبوّت کی تعلیمات کے برعکس، اسلام کے نام پر لوگوں کی ہدایت کے بجائے کشور کشائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان تو موجود ہیں لیکن اسلام خود مسلمانوں کے اندر بھی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ بلا شبہ مسلمانوں میں یہ طرح طرح کی گمراہیاں اور اختلافات اللہ کے آخری نبی ؐ کی وصیّت کو اہمیّت نہ دینے کی وجہ سے ہیں۔ خود نبی ؐ نے فرمایا تھا کہ میری یہ وصیّت قیامت تک امّت کو گمراہی سے بچائے گی۔ مسلمانوں کی موجودہ ابتر صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ تعلیماتِ نبوّت اور انسان کے درمیان آج بھی ایک خلیج موجود ہے۔
اب یہ ہر دور کے اسلامی اسکالرز کیلئے ایک معمّہ اور چیلنج رہے گا کہ وہ اس خلیج کو پُر کرنے کیلئے دیگر قرائن اور شواہد سے عالمِ بشریّت کو تعلیماتِ نبوّت کے قریب لائیں۔ فقط عبادات یعنی نماز، روزہ اور حج ۔۔۔ کے ذریعے انسان تعلیماتِ نبوّت کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز، روزے، حج، تلاوتِ قرآن ۔۔۔ کے باوجود مسلمانوں میں وہ سب برائیاں، گناہ اور جرائم بدرجہ اتم موجود ہیں جنہیں ختم کرنے کیلئے تاجدارِ ختمِ نبوّت مبعوث ہوئے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن اسلام مزید سُکڑتا جا رہا ہے۔ خود مسلمان ہی اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں۔اب یہ جہانِ اسلام کے دانشور حضرات پر ہے کہ وہ تولیدِ نسل پر زور دینے کے بجائے اپنی نسلوں کو ۱۴ سو سال پہلے کی دنیا میں اللہ کے آخری نبی ؐ کے محضر میں لے جائیں اور قرآنی و حدیثی نیز تاریخی قرائن سے یہ کشف کریں کہ پیغمبر ؐ آخری وصیّت کیا کرنا چاہتے تھے!۔ وہ وصیّت در اصل اُمّت کی ہدایت کی زنجیر کی آخری کڑی ہے جو اس اُمّت نے کھو کر گُم کر دی ہے۔ اُمت کی یہ زبوں حالی بتا رہی ہے کہ امّت کا حالیہ جاری سفر بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ ٹرین کے ڈبّے کی زنجیر کسی دوسری سمت جانے والے انجن کے پیچھے لگا دیں۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُمّت کی یہ زنجیر دوبارہ نبوّت کے انجن کے ساتھ جوڑ دی جائے؟ کیا ختم النبیین کی وصیّت کو نظر انداز کر کے انسان دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کر سکتا ہے؟ جو شخص ایسا سوچتا ہے کہ ” ختم النبیین کی وصیّت کو نظر انداز کر کے کوئی انسان دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کر سکتا ہے” تو وہ یقیناً ” انسان اور نبوّت کے تعلق ” کو نہیں سمجھتا۔
نبوّت کا آغاز انسان کے جنم کے ساتھ ہی ہوا۔ اس کائنات میں انسانیت اور نبوّت دونوں دو جڑواں بہن بھائیوں کی مانند ہیں۔ نبوّت کا انسان کو فائدہ ہی یہ ہے کہ اس کی پیروی کرنے سے انسان ہر طرح کے ضرر، برائی، بدبختی اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔
صحیح بخاری، ج ۸، ص ۹ و مسند احمد ج۱ ص ۴۲۵