بے رحم اشرافیہ کی بے رحمانہ طرز فکر۔| تحریر: سید محبوب احمد چشتی
کچھ ہوا ہے شہر قائد میں بے رحم اشرافیہ کی بے رحمانہ طرزفکر کسی غریب کی جان لے گئی سانحہ کارساز میں خون ہی خون نظرآیا ، زخمی عبدالسلام سمیت دیگر کو بھی یاد رکھنے ضرورت ہوگی ۔ کورنگی نمبر 1 کے رہائشی عبدالسلام کتابوں کی سپلائی کرتے تھے شہرقائد میں قتل کو حادثات قرار دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہوگا اس بدنصیب شہر کے بد نصیب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے معاشی دہشت گردی سے لیکر ایساکونسا ظلم نہیں ہے جو ڈھایا نہیں جارہاہے غریب کے خون پرانقلاب آنے کارواج اب ختم ہوتا جارہا ہے۔
اس بار غریب کے خون کی قیمت کتنی لگتی ہے اصل افسوناک خبر یہ ہوگی ۔نتاشا دانش اقبال کا کوئی قصور نہیں ہے جس روڈ پر یہ بورڈ نہ لگاہوا کہ یہاں سے غریب کی موٹرسائیکل اور مڈل کلاس طبقے والوں کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہے تو پھر یہ آمنہ عارف اور انکے والد کو مرناہی تھا کیا ہوا ایک غریب محنتی خاندان تباہ برباد ہوگیا سلامت رہے یہ خونی اشرافیہ ہمیں اور کیا چاہیئے ہم غربت ختم نہیں کرسکتے غریب توختم کرسکتے ہیں اور یہ پاکستان میں یہ اشرافیہ کا پسندیدہ مشغلہ بھی ہے تاریخ بھری پڑی ہے کیوں کہ یہاں انصاف کا گورھ دھندہ ہے ایک غریب خاندان کے باپ ،بیٹی کے چلے جانے سے کیا فرق پڑے گا اگراشرافیہ خاندان کے ایک فرد کو لٹکا دیا گیا تو یہ یہ توہین اشرافیہ ہوگی اور توہین اشرافیہ کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ پھرسب کی توہین ہوگی اس لیئے امید ختم کردیں کہ آمنہ عارف ،والدکے خاندان کو انصاف ملے یا نہ ملے تماشا لگانے سے یہاں دکھ مزید ضرور ملے گے اشرافیہ طرزفکربڑی رقم کے معاملے پر مظلوم خاندان کو بڑی آسانی سے دبائومیں لیکر اپنی پیاری بیٹی نتاشادانش اقبال کو باآسانی پرسکون طریقے سے گھر لے جانے میں کامیاب ہوجائینگے۔
قابل مظوم چچا امتیاز عارف انصاف کہاں تک مانگیں گے اشرافیہ کے سامنے کس طرح کھڑے ہونگے غریب کو صرف تاریخ پہ تاریخ ہی ملتی ہے نئی تاریخ رقم کرنے کے لیئے اس شہر کو کھڑاہوناپڑے گا عمران عارف کو ناگہانی موت اور آمنہ عارف کی ڈولی کو جنازے میں تبدیل کرنے کا یہ گناہ انسانی شعور کو اگربیدار نہیں کرسکا تو یہ حیران کن تو نہیں ہوگا لیکن قابل مذمت وافسوناک ہوگا کیونکہ ہرشہر میں ایسی نہ جانے کتنی آمنہ عاف ،اور عمران عارف نکلتے ہونگے آج بشری زیدی آمنہ عارف کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں انصاف کو دولت کی آہنی دیوار سے ٹکرانا ہے اور یہ جب ممکن ہوگا جب یہ شہرآمنہ عارف ،عمران عارف کے ساتھ کھڑا ہوگااب یہاں سے نتاشا دانش کا اصل امتحان شروع ہوگا کیونکہ قدرت یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے ایک غریب خاندان کی بیٹی آمنہ عارف جو ایم بی اے کررہی تھی باپ بیٹی مل اپنے خاندان کی کفالت کررہے تھے اس ملک کی اشرافیہ یہ کیسے برداشت کرلیتی کہ غریب ہمارے سامنے کھڑا ہو اور یہی غلطیاں اس ملک میں غریب کررہاہے اس میں قصور غریب کا ہی ہے کیونکہ وہ اشرافیہ کے سامنے یا تو لیٹا ہو ا ہے یا پھر معاشی دہشت گردی سہہ رہاہے قرضوں کے جال پھنسا ہواہمارے وطن کی اشرافیہ پر گوروں کا سب سے غریب بچہ بھی رحم کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ یہ سب کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں لیکن ہمارا قرضہ واپس کرنے کی اوقات نہیں ہے گوروں کی نگاہ میں ہمارے ملک کی اشرافیہ قابل رحم ہے کیونکہ اس بے رحم اشرافیہ کے پاس اگرکچھ ہے تو وہ آئی ایم ایف کا دیا ہوا ہے شاید اسی وجہ سے اشرافیہ طبقے کے ساتھ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیئے جاتے ہیں اور رہی اس ملک کے غریب محنتی لوگوں کی بات تو یہ بھی اپنے غربت معاشی دہشت گردی کوسہتے ہوئے اشرافیہ کے خاندانوں اور انکی نسلوں کو اپنے خون سے انکو زندگی دے رہے ہیں بے رحم اشرافیہ کی دہلیز پرجب تک غریب کا خون نہیں گرتاانکے گھرروشن نہیں ہوتے یہاں بھی یہ اشرافیہ غریبوں کی محتاج ہے لیکن یہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ بے رحم اشرافیہ طبقے کے لیئے تو قدرت کی جانب سے ٹرائل کا برسوں سے سلسلہ جاری ہے کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
سانحہ کارسازکیس کے حوالے سے ہائی کورٹ کے وکیل سید شفقت بخاری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرکے مطابق یہ لڑکی نتاشا دانش اقبال ذہنی طور پر معذور نہیں ہے بالکل ٹھیک ہے ہوش و حواس میں تھی لیکن ڈرنک تھی آئس کا نشہ کیا ہوا تھا اس نے سات کمپنیوں کی ڈائریکٹر ہے وہ کروڑ روپے نہیں ارب پتی نہیں کھرب پتی فیملی سے ہے تاشا کو سزا نہیں ملی تو اپ سمجھ لیں کہ کراچی کا کوئی بندہ جو گاڑی چلا رہا ہے موٹر بائیک چلا رہا ہے وہ محفوط نہیں ہے یہ کھلا قتل ہے اس کے لیے بہت ساری کوشش کرنا پڑے گی مجرم یا ملزم وہ ایک جیسا ہوتا ہے قانون میں سب ایک جیسا ہوتا ہے امیر ہو یا غریب ہو، دوسری جانب صدر جوناگڑھ اسٹیٹ لائرز فورم و سابق ایم این اے سلمان مجاہدایڈوکیٹ جانبحق ہونے والے بدقسمت باپ بیٹی ودیگرکا کیس بلا معاوضہ لڑنے کو تیار ہوں سلمان مجاہدایڈوکیٹ نے اپنے جاری وڈیو پیغام میں کیا انہوں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ سانحہ کارساز میں ہلاک شدگان کے مدعی مقدمہ کی جانب سے بغیر کسی فیس کے اس کیس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہیںاس بابت ا یک پیغام میںمدعی مقدمہ امتیاز عارف کو بذریعہ واٹس اپ بھیجا جا چکا ہے مدعی واہل خانہ کی اجازت کے بعد اس انتہائی اہم مقدمہ کی پیروی شروع کردی جائیگی مقتولین ، انکے لواحقین اور زخمیوں کو انصاف دلانے کے لئے ہم انکے شا نہ بشانہ کھڑے رہیں گے قدرت کا انتقام اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ سرے عام اس شرافیہ طبقہ کی ذلت ہورہی ہے غریب کے ساتھ پورا شہرکھڑا ہوگیا ہے بشریٰ زیدی سے آمنہ عارف تک جتنے بزرگوں کی قربانی اس وطن کے لیئے ہے وہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور یہ تاریخ ایسے ہی بے رحم اشرافیہ کورہتی دنیا چین سے سونے نہیں دے گی اس زیادہ قدرت کا انتقام اور کیا ہوگا کہ اس امیرخاندان کو زندگی میں سرے عام ذلت مل رہی ہے اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ملک کی عوام کو شعور دے کہ وہ حق اور بھیک میں واضع فرق کومحسوس کرسکے اللہ آمنہ عارف انکے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین)