نظریہ ابراہم مسلو اور ایک تاریخی واقعے کی تحلیل۔ | تحریر: عارف بلتستانی
سائیکالوجی کی دنیا میں ابراہم مسلو کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ ماہر نفسیات اور ماہر عمرانیات ہے۔ وہ کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ اس کی ایک مشہور کتاب “شخصیت اور انگیزہ ہے۔ جس میں ایک معمولی انسان کی خودشکوفائی اور خودشناسی کے درجے تک پہنچنے کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ ان مراحل کو طے کرنے کےلئے مسلو نے پانچ انسانی ضروریات کو ترتیب وار بیان کیا ہے۔ وہ اس بات کا معتقد ہے کہ جب تک پہلی اور بنیادی ضرورت پوری نہ ہو تو اس وقت تک انسان دوسری ضرورت کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ ہر ضرورت دوسری ضرورت کےلئے ایک سیڑھی کی مانند ہے۔ جس کے بغیر منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ درجہ بندی نفسیات میں ایک محرک نظریہ ہے، جسے اکثر اہرام کے اندر درجہ بندی کی سطح کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ جس کو ابراہم مسلو کا نظریہ ضرورت یا مسلو کا تحریکی نظریہ کہتے ہیں۔
وہ پانچ ضرورتیں ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں۔ جسمانی ضرورت، حفاظتی ضرورت، عشق و محبت یا اجتماعی ضرورت ، عزت و احترام کی ضرورت اور آخری ضرورت خودشکوفائی و خودشناسی کا مرحلہ ہیں۔
جسمانی ضروریات
یہ انسانی بقا کے حیاتیاتی تقاضے ہیں۔ پانی، ہوا، روٹی، کپڑا، مکان، شہوت اور نیند جیسی ضروریات جسمانی بقا کےلئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ مسلو نے جسمانی ضروریات کو سب سے اہم سمجھا کیوں کہ باقی تمام ضروریات اس وقت تک ثانوی ہو جاتی ہیں جب تک یہ ضروریات پوری نہیں ہو جاتیں۔
حفاظتی ضروریات
جسمانی بقا کےلیئے حفاظت کی ضروریات خاندان اور معاشرے (مثلاً، پولیس، اسکول، کاروبار، اور طبی دیکھ بھال) سے پوری کی جا سکتی ہیں۔ جسمانی اور حفاظتی ضروریات پوری ہونے کے بعد، انسانی ضروریات کا تیسرا درجہ سماجی اور اجتماعی ضرورت ہے اور اس میں اپنائیت کے جذبات شامل ہیں۔ کیوں کہ باہمی تعامل کے بغیر انسان زندگی نہیں جی سکتا۔
عشق و محبت یا اجتماعی ضروریات
اس سے مراد باہمی تعلقات، وابستگی، تعلق، اور ایک گروپ کا حصہ ہونے کی انسانی جذباتی ضرورت ہے۔ وابستگی کی ضروریات کی مثالوں میں دوستی، قربت، اعتماد، قبولیت حاصل کرنا اور پیار دینا اور محبت شامل ہیں۔ خاندان اس کی بہترین مثال ہے۔
عزت و احترام کی ضرورت
عزت و احترام کی ضروریات مسلو کے درجہ بندی میں چوتھے درجے کی ہیں اور ان میں عزت نفس، کامیابی اور احترام شامل ہے۔ وہی انسان خودشناسی کی طرف بڑھ سکتا ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت کرتا ہے۔
خود شناسی و شکوفائی کا مرحلہ
یہ مسلو کے تنظیمی ڈھانچے میں اعلی ترین سطح ہے۔ ضرورت کی اس سطح سے مراد ایک شخص کی مکمل خودشناسی اور اس کی صلاحیت کا مکمل ادراک ہے۔
لیکن ابراہم مسلو کا یہ نظریہ اپنی جگہ پر برقرار نہیں ہے۔ انسان کی رفتار ، رویے اور ضروریات میں وقت اور ماحول کے مطابق ان کی ترتیب میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ کبھی چنگیز و ہٹلر و داعش اور غاصب اسرائیل کی مانند انسانوں کے خون پینے کو اپنی خودشکوفائی سمجھتا ہے، تو کبھی انبیا و اولیا اور حجج اللہ کی مانند بارگاہ الٰہی میں گریہ و زاری، لوگوں کی خدمت اور ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کرنے کو خودشکوفائی سمجھا جاتا ہے۔ انسانی ضروریات کی بنیاد اس کے تصور کائنات پر منحصر ہے۔ آئیے نظریہ تحریک کو کوفہ کے عوام اور اصحاب عاشورا کو مد نظر رکھتے ہوئے تحلیل کرتے ہیں۔
اگر کوفہ کے عوام کے رویے کو مسلو کی تحریکی نظریے کی ضمن میں دیکھیں تو بہت سے نشیب و فراز دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت میں دیکھیں تو مسلو کی ترتیب کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں خودشناسی و خودشکوفائی کا درجہ ہے۔ اس کے بعد عزت و احترام کا درجہ ہے۔ تیسرے نمبر پر عشق و محبت کا درجہ ہے۔ حفاظت کا درجہ چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ جسمانی ضروریات آخری درجے پر ہے۔ اس میں جتنا خود شکوفائی و خودشناسی مضبوط ہوگی اتنا ہی باقیوں کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔ یہ حجج الہی کے دور حکومت میں انسانی ضروریات کی ترتیب ہے۔
یہ مرحلہ عبیداللہ ابن زیاد کے کوفے میں داخل ہونے سے پہلے تک ہے جو ابراہم مسلو کی ترتیب مختلف ہے۔ جب عبیداللہ ابن زیاد کوفے میں داخل ہوتا ہے، مسلو کی اس ترتیب میں ایک اور تبدیلی آتی ہے۔ اس وقت کوفہ کے عوام کے رویے میں حفاظتی ضرورت کی قدر اس حد تک بڑھ جاتی ہے جسمانی ضرورت تیسرے نمبر پر چلی جاتی ہے۔ سماجی ضرورت دوسرے نمبر پر آجاتی ہے جب کہ احترام چوتھے اور خودشناسی پانچویں نمبر پر آجاتی ہے۔ یہاں بیوی شوہر کو، اور باپ بیٹے کو ہاتھ سے پکڑ کر گھروں کی طرف لے جاتی ہے۔ تا کہ ان کی حفاظت کر سکے۔ جب ایک ظالم، جابر حکمران حکومت چلانے لگتا ہے تو اس وقت سکیورٹی ضرورت، روٹی کپڑا مکان، عشق، احترام اور خودشناسی سے بھی زیادہ اہم لگنے لگتی ہے۔
یہی تحریکی نظریہ کربلا میں روز عاشور حر بن یزید ریاحی کے رویے پر تطبیق دیتے ہیں۔ حر بن یزید ریاحی، حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کے لشکر سے ملنے سے پہلے احترام میں پہلے نمبر پر ہے۔ خودشناسی دوسرے نمبر پر ہے جبکہ چوتھے نمبر پر حفاظتی اور پانچویں نمبر پر جسمانی ضرورت ہے۔ حر کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ مال و دولت، مقام و منزلت، کمانڈ موجود ہے۔ لیکن اس کے پاس احترام کا درجہ باقیوں سے زیادہ ہے اسی لیئے وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرتا ۔ وہ امام حسین علیہ السلام کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسی وجہ سے حر، واقعی میں حر بن کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ ملتا ہے۔ لشکر امام حسین میں داخل ہونے کے بعد مسلو کی اس ترتیب میں ایک معلومی تبدیلی واقع خودشناسی پہلے نمبر پر جب کہ احترام کا درجہ دوسرے پر واقع ہوتا ہے۔ اجتماع تیسرے نمبر، حفاظت چوتھے نمبر پر جبکہ پانچویں نمبر پر جسمانی ضرورت ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنا انسان معنویت سے جڑ جاتا ہے اتنا ہی خودشناسی کا درجہ بڑھ جاتا ہے اور جسمانی اور مادی ضرورت کی وقعت ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسی لیئے کہتے ہیں جس انسان نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خالق حقیقی کو پہنچان لیا۔ جس نے خدا کو پہچانا اس نے بغیر کوئی چیز کھوئے سب کچھ حاصل کیا۔ اس مرحلے تک پہنچنے کےلئے انسان کو اپنی بہت سی ضروریات کو ٹھکرانا پڑتا ہے۔ انسان کو جتنا معنوی ماحول ملتا ہے اتنا زیادہ وہ رشد بھی کرتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی فطرت کی طرف پلٹ رہا ہوتا ہے۔ فطرت کی طرف پلٹنا ہر انسان کی سرشت کا حصہ ہے بس خود کو لامحدود سے جوڑنے کی دیر ہے۔ اس لامحدود ہستی سے جوڑنے اور فطرت کی طرف پلٹنے کےلیئے کربلا و عاشورا بہترین معنوی ماحول ہے۔ کیوں کہ کائنات کا ہر جگہ کربلا ہے اور ہر لمحہ عاشور ہے۔ اس ماحول میں داخل ہونے کےلیئے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حُرِّیت کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔
ہر انسان فطرت کی طرف واپس پلٹنا چاہتا ہے۔ جو کوئی بھی فطرت کی طرف پلٹتا ہے وہ مظلومین کا حامی اور ظالموں سے نفرت کرتا ہے۔ فطرت، انسان کو حریت کی طرف لے کر آتی ہے۔ جب انسان حریت پسند بن جاتا ہے تو مظلومین کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ چاہے وہ مظلومین فلسطین میں ہوں یا چاہے وہ مظلومین کشمیر میں ہوں۔ حریت پسند، ہمیشہ خود کو قافلہ عشق کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اس کےلیے دنیا کی مادی ضرورتیں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ روٹی کپڑا، مکان اور مادی ضرورتوں کے پیچھے وہی لوگ لگے رہتے ہیں جن کے اندر طاغوت اور ظالموں سے ٹکرانے اور ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہ ہو۔ ہمت، شجاعت، حریت، خود شناس وہی لوگ بن سکتے ہیں جو ملکوت اعلیٰ سے جڑے ہوئے لوگوں سے تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ جو لوگ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم اور ابراہم مسلو کی ضرورت کی بنیاد پر تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں، وہ ہمیشہ طاغوت کےلیئے آلہ کار کی حیثیت بن کر ان کے گن گانے لگتے ہیں۔ چاہے وہ سکالرز ہو عالم دین، مبلغ و یا معلم کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہمیں خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ آیا ہم نے اپنے بارے میں کبھی سوچا ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کہاں ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہئیے؟