جامعہ عروة الوثقٰی ایک عظیم شاہکار۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال
رواں سال کی بات ہے۔جنوری کی 23 تاریخ تھی۔صبح سویرے میری آنکھ کھلی۔ہوا میں کافی خُنکی تھی مگر آغا سید جواد نقوی سے ملنے کی تڑپ نے جسم کو گرما دیا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد میں اپنا بیگ لے کر شاپ تک آ گیا۔دس بجے کے قریب برادر زاور محمد حسین شاپ پر آگئے انھوں نے کہا گاڑی آ گئی ہے چلو لاہور چلتے ہیں۔میں اپنے روحانی اور فکری بھائیوں کے ساتھ باغوں کا شہر لاہور کی جانب پابہ رکاب ہوا تھا۔ہمارا ہدف اول جامعہ عروة الوثقٰی لاہور پہنچنا تھا۔گلگت سے 3 بجے کے قریب روانہ ہوئے اور اگلی صبح 9 بجے راولپنڈی پہنچ گئے تھے۔وہی ناشتہ کیا اور دوسری بس پکڑ کر لاہور کی طرف نکلے۔گوجرانوالہ باب العلم جامعہ جعفریہ میں ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا۔ہم دو بجے کے قریب یہاں رکے نماز پڑھی، کھانا کھایا اور مدرسے کا وزٹ کیا۔اس مدرسے کا بانی مفتی جعفر حسین تھے۔کہا جاتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد مولیوں نے اجارہ داری قائم کی اور کئی پلاٹ پیچ چکے ہیں۔گٹر اُبل رہے تھے علاقہ بھر میں تعفن پھیل رہا تھا اور کوئی پُرسان حال نہ تھا۔اب آغا سید جواد نقوی کی زیر سرپرستی میں ہے۔یہاں بہت سارے طلبہ زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور رونقیں پھر سے دوبالا ہو گئیں ہیں۔
بہر حال طویل ترین سفری صعوبتوں کو طے کرتے ہوئے مغرب کے وقت جامعہ عروة الوثقیٰ کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ہمیں مہمان خانے میں بٹھایا گیا۔مغرب کی نماز مسجد بیت العتیق میں ادا کی۔یہ مسجد پاکستان کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت چالیس ہزار نمازیوں کے لیے گنجائش ہے۔ناگاہ میری نظر “اُفق المبین سٹوڈیو” پر پڑی۔میں کھڑکی سے باہر ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا عظیم اور بلند عمارتیں پوری شان کے ساتھ سامنے کھڑی تھی۔شام کا وقت اور برقی قمقموں میں یہ بلند عمارتیں مزید حٙسین اور بھلی معلوم ہوتی تھی۔اتنے میں بردار صادق علی میرے ساتھ کھڑے ہوئے۔ان سے میں نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری عمارتیں آغا صاحب نے بنوائی ہیں۔انھوں نے اثبات میں سر ہلایا اور میرا ہاتھ تھام کر آگے کی جانب بڑھنے لگا آؤ میں تمہیں مدرسے کی سیر کراتا ہوں۔
مین گیٹ سے فرنٹ کی جانب ایک بہت بڑی راہ داری ہے۔جس کے دونوں اطراف میں مختلف شعبہ جات کی بلند عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔سامنے ایک کھلا میدان تھا۔جہاں صبح ہونے والی پروگرام کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھی۔پروگرام 13 رجب المرجب حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے سلسلے میں بعنوان “میلاد خیبر شکن” منعقد کیا گیا تھا۔ہم کافی تھک چکے تھے۔واپس کمرے میں آرام کرنے لگے۔اتنے میں کھانے کے لئے بلایا گیا۔تھکان کے باعث جسم ہلکان تو ہو رہا تھا مگر بھوک بے طرح زوروں پر تھی۔لہٰذا ہم طعام گاہ چلے گئے۔جہاں پر ہزاروں لوگوں کی بھیڑ تھی مگر ہر کام منظم طریقے سے انجام پذیر ہو رہا تھا۔
رات گیارہ بجے کا وقت تھا۔ہم سونے کے لیے بستر کو سدھار رہے تھے۔اتنے میں بتایا گیا کہ گلگت سے آنے والے مہمانوں کو آغا صاحب یاد کر رہا ہے۔ہم بستروں سے اٹھ کر آغا صاحب سے ملنے چلے گئے۔آغا صاحب آگے نکڑ پر کرسی لگا کر انتظامات کی نظارت کر رہا تھا۔ہم نے باری باری آغا صاحب سے مصافحہ کیا اور قطار میں قطب ہو گئے۔آغا صاحب نے ہمارا حال اور سفری مشکلات کے متعلق کچھ نہ پوچھا اور ڈائریکٹ ہی کہنے لگا “سردی زیادہ ہے کوئی کام ڈھونڈو” یہ فقرہ سنتے ہی ہم نے آداب تسلیمات بجا لایا اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کام تلاش کرنے لگے۔زمین پر پڑے چند پائپوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا اور آرام سے کمرے میں آکر سونے لگے۔
فجر کی اذان کانوں میں گونجنے لگی میں نیند سے بیدار ہوا۔لاہور میں ویسے بھی اذانوں کا غُل زیادہ ہوتا ہے۔وضو کر کے نماز کی صف میں کھڑے ہو گئے۔باہر نمازیوں کا بڑا رش تھا۔نماز کے فوراً بعد ناشتہ کیا اور ٹھیک نو بجے پروگرام شروع ہوا۔اس دن سردی کی لہر تیز تھی۔دھند نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔چند قدم کے فاصلے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔پروگرام میں شرکت کے لیے پورے پاکستان سے قافلے پہنچ چکے تھے۔پروگرام میں ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی تھی۔یہاں تک کہ ایک ہندو شاعر بے مولا کی شان میں منقبت پڑھی جس کی آغا صاحب نے دل کھول کر داد دی۔یہ طویل پروگرام شام پانچ بجے اختتام پذیر ہوا مگر لوگوں کے جوش و جذبے میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی کہیں کوئی بدنظمی ہوئی۔
یہ پہلا موقع تھا جب میں نے جامعہ کو قریب سے دیکھا۔واقعاً کمال کی اٙحسن تخلیق ہے۔اس مدرسے کو باقی دینی روایتی مدارس سے بالکل منفرد پایا۔جامعہ کا انفاسٹریکچر قابل دید ہے۔پہلی بار آنے والا انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس عظیم شاہکار کے پیچھے کوئی عظیم فکر اور بلند مقصد کارفرما ہے۔یہاں قدم رکھتے ہی آپ کو خودداری کا احساس ہوتا ہے۔میں یہی کہوں گا جو لوگ مختلف پروپیگنڈوں کا شکار ہیں۔جن کے اذہان میں جامعہ سے متعلق سوالات پنپ رہے ہیں۔وہ جامعہ عروة الوثقٰی کا ضرور وزٹ کریں۔یقیناً آپ کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔بعض افراد کا کہنا ہے کہ جامعہ میں 70 فیصد دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔دراصل جامعہ اتنی بڑی ہے کہ انسان صرف سوچ سکتا ہے۔اتنا بڑا سسٹم چلانے کے لیے سٹاف کی ضرورت تو ہوتی ہے۔جیسے کوئی ڈاکٹر مریض چیک کرتا ہے،کوئی کمپیوٹر پر کام کرتا ہے۔کوئی ،کیمسٹری، فزکس، پڑھاتا، کوئی دھوبی کا کام کرتا ہے کوئی بھینس کا دودھ دھوتا کر رزق حلال کماتا ہے۔باقی دوسری معاملات میں ان کی مداخلت نہیں ہے۔بچوں کی دینی تعلیم شعیہ اساتذہ ہی دیتے ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ بچے جو اس فتنے سے بھر پور زمانے میں ایک ایسی درس گاہ میں پڑھ رہے ہیں جو مکمل سہولیات سے آراستہ ہونے کے ساتھ ان کی ناموس بھی محفوظ ہے۔یہاں کے طلبہ مکمل حفاظت میں ہیں۔بچوں کو روایتی کھول سے نکالنے کے لیے جدید طرز پر تعلیم و تربیت کی جا رہی ہے۔
Rattling good info can be found on weblog.Blog range