ریڈیو نامہ ، ابتدائے عشق۔ حصہ دوم ۔ | تحریر: نور احمد
ریڈیو سے وابستگی جب بڑھی تو صرف بچوں کے پروگرام تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ میڈیم ویو پر ریڈیو پاکستان کراچی، حیدرآباد ، خیرپور، بی بی سی ، تو شارٹ ویو پر آل انڈیا ریڈیو سمیت بیرونِ ممالک سے نشر ہونے والی تقریباً تمام ہی اردو نشریات سے جلد ہی تعارف و وابستگی ہوگئی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ریڈیو پاکستان کے مذکورہ بالا تینوں اسٹیشنوں کے روزانہ کی بنیاد پر صبح سے لیکر رات گئے تک نشر ہونے والے پروگراموں کا پورا معمول رٹا ہوا ہوتا تھا۔ یہی صورت بین الاقوامی نشریات کے حوالے سے بھی تھی۔
پھر جیسے آج کل ہم میں سے ایک بڑی اکثریت کو صبح اٹھتے ہی موبائل فون کی تلاش ہوتی ہے ، ہمیں ان دنوں بالکل اسی طرح ریڈیو کی کھوج ہوتی تھی۔
نشریات سننے کی ابتدا عام طور پر دینی پروگرام “حی علی الفلاح” سے ہوتی۔ بعد ازاں بی بی سی اردو و “صبحِ پاکستان” یا آل انڈیا ریڈیو بھی سنے جاتے۔
ساتھ میں ناشتہ و اسکول کی تیاری بھی جاری رہتی۔ پھر جب اسکول کا وقت قریب آتا تو “بادلِ ناخواستہ” روانہ ہونا پڑتا۔ (یہ الگ بات ہے کہ چھٹی ساتویں جماعت تک پہنچے تو ریڈیو سیٹ اسکول بھی ساتھ لے جانا شروع کر دیا تھا)۔ خیر ایسا پابندی سے نہیں ہوتا تھا، لیکن جب کبھی کوئی اہم کرکٹ میچ ہوتا یا اسکول کیلئے نکلتے وقت چلنے والا پروگرام کسی دلچسپ موڑ پہ ہوتا تو ریڈیو ساتھ لے لیتے۔
اس سے ہٹ کے عام معمول یہی تھا کہ صبح اٹھ کر ریڈیو سننا شروع کیا، اسکول جانے تک سنتے رہے، پھر چھٹی کے بعد گھر پہنچتے ہی دوبارہ سے سننا شروع کر دیا ، ساتھ میں کھانا پینا و اسکول سے دیا گیا گھر کا کام بھی چل رہا ہوتا ، لیکن مجال ہے جو ریڈیو سے دوری ہو۔
پھر شام میں کھیلنے جاتے یا کھیتوں میں کام کیلئے اور بکریاں وغیرہ چرانے جاتے تب بھی ریڈیو مستقل طور پر ساتھ رہتا۔ اور یہ سلسلہ شام و رات تک جاری رہتا۔ پھر اس عمل کا اختتام یا تو نیند کے بے جا غلبے کی وجہ سے ہوتا یا پھر رات گئے ریڈیو پاکستان کی نشریات کی تکمیل پر ہوتا۔
اگلی صبح پھر دوبارہ سے یہ سب نئے سرے سے شروع ہو جاتا۔
بس کچھ یوں تھا کہ محاورے کے طور پر نہیں بلکہ فی الواقع ریڈیو اوڑھنا بچھونا تھا اور طویل عرصہ تک ایسا رہا، اور اس سے بلاشبہ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ریڈیو کو اپنے اساتذہ میں شمار کرتا ہوں۔
پچھلی قسط میں بچپن میں اپنے ریڈیو کے حوالے سے صبح کے معمول کا ذکر ہوا، جس میں ریڈیو پاکستان کے پروگرام حی علی الفلاح و صبحِ پاکستان ، پھر شارٹ ویو اور بی بی سی اردو کی صبح کی نشریات کا ذکر ہوا۔
انہی دنوں شارٹ ویو پر سری لنکن ریڈیو “سیلون” کی نشریات بھی سنا کرتے تھے۔
معمول کے مطابق ایک بار جب ریڈیو سیلون لگایا تو “دن ہے سہانا آج پہلی تاریخ ہے” گیت سنائی دیا، بعد ازاں پتہ چلا کہ ریڈیو سیلون والوں کا یہ برسہا برس سے معمول ہے کہ وہ ہر ماہ کو پہلی تاریخ کی صبح یہ والا گیت چلاتے آ رہے ہیں۔ اب جب بھی پہلی تاریخ ہوتی، پاکستانی وقت کے مطابق صبح سات بجے ریڈیو سیلون لگا کر آواز کو پوری طرح کھول دیا کرتا اور مذکورہ بالا گیت کو پورے انہماک و دلچسپی سے سنتا۔ یہ گویا میرا ایک باقاعدہ معمول بن گیا تھا اور کافی عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس وقت نہ موبائل فون تھا، نہ الارم نہ یاددہانی کیلئے کوئی اور ذریعہ، پھر بھی مجال ہے جو پہلی تاریخ ہو، اور اپنا یہ معمول یاد نہ رہے۔
حسبِ معمول ایک بار جب میں کشور کمار کی چنچل آواز میں پوری آواز کے ساتھ مذکورہ گیت سن رہا تھا تو خاندان کے ایک بزرگ نے سوال کیا کہ “بیٹا یہ گیت بڑوں یعنی تنخواہ داروں کو اگر اچھا لگتا ہے تو سمجھ آتا ہے لیکن کیا آپ کو بھی یہ مزہ دیتا ہے ؟”
ذرا اوپر جو معمولات و دلچسپیوں سے وابستگی و یکسوئی کے حوالے سے بات ہوئی ، میں جب بھی اس بارے سوچتا ہوں تو یہی چیز سمجھ آتی ہے کہ ان دنوں کیونکہ جدید آلات و دلچسپی بٹانے والی چیزوں و اسکرینوں وغیرہ سے انسان آزاد تھا تو اعلیٰ سطح کی ذہنی یکسوئی و سکون حاصل تھا، یہی وجہ تھی کہ اس طرح کے معمولات نہ صرف یاد رہتے تھے بلکہ ان سے آدمی پوری طرح سے لطف اندوز بھی ہوتا تھا، اور گھنٹے بھر کا پروگرام چینل بدلے بغیر آدمی سکون سے سنتا رہتا تھا، بلکہ کئی بار تو کئی گھنٹوں تک ایک ہی چینل لگا رہتا تھا۔ کیوں کہ یکسوئی اپنی بہتر سطح پر تھی۔ دوسری طرف موبائل فون و موجودہ انٹرنیٹ و دیگر آلات کی آمد کے بعد جو تحقیقات ہوئی ہیں ان کے مطابق آج کے دور میں انسان کا کسی بھی چیز کی طرف “متوجہ رہنے کا اوسط دورانیہ” کم ہوتے ہوتے صرف چند سیکنڈ تک رہ گیا ہے۔ ویڈیوز کے حوالے سے اس وقت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم یوٹیوب کے اعداد وشمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسی بھی ویڈیو پر آنے والے کل صارفین میں سے ایک بڑی تعداد شروع کے دس سیکنڈ تک بھی اس ویڈیو کو نہیں دیکھ پاتی۔ بقول شاعرِ مشرق
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
بہرحال یہ تو برسبیلِ تذکرہ بات نکل آئی، باقی ریڈیو سیلون کے حوالے سے اس بات کا ذکر بھی یقیناً دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ ایشاء کا قدیم ترین اسٹیشن ہے جس نے اپنی نشریات کا آغاز سنہ 1925 میں کیا تھا یعنی یہ عنقریب سو سال کا ہونے والا ہے۔
باقی یہاں چاہوں گا کہ مذکورہ بالا دلچسپ گیت کو مکمل طور پر لکھ دوں تاکہ احباب کی یادیں پھر سے تازہ ہوپائیں۔
دن ہے سہانا، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
بیوی بولی گھر ذرا جلدی سے آنا ، جلدی سے آنا
شام کو پیا جی ہمیں سینما دکھانا، ہمیں سینما دکھانا
کرو نا بہانہ،بہانہ بہانہ
کرو نا بہانہ، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
کس نے پکارا ، رک گیا بابو
لالہ جی کی جان آج آیا ہے قابو
ہو پیسہ ذرا لانا، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
بندہ بے کار ہے، قسمت کی مار ہے
کب دن ایک ہیں، روز اعتبار ہے
مجھے نا سنانا، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
گھر کے سامنے آئے مہمان ہیں
بڑے ہی شریف ہیں، پرانے مہربان ہیں
ارے جیب کو بچانا، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
دل بیقرار ہے، سوئے نہیں رات سے
سیٹھ جی کو غم ہے کہ پیسو چلے ہاتھ سے
ارے لٹے گا خزانہ، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے
ہائے سینما والو! آؤ آؤ کھیل مزیدار ہے
آغا ہے، بھگوان ہے، کشور کمار ہے
نمی گیتا بالی ہے، اشوک کمار ہے
نرگس راج کپور ہے، دلیپ کمار ہے
گیتوں کا طوفان ہے، ناچ کی بہار ہے
ارے واپس نہیں جانا، آج پہلی تاریخ ہے
خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے
مل جل کے بچوں نے، باپو کو گھیرا
کہتے ہیں سارے کہ باپو ہے میرا ، باپو ہے میرا
کھلونے ذرا لانا، آج پہلی “تالیخ” ہے
خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے
دن ہے سہانا آج پہلی تاریخ ہے
ریڈیو پاکستان کراچی سے ہر ہفتے چھٹی والے دن سامعین کے خطوط پر مشتمل پروگرام “آپ کا خط ملا” نشر ہوا کرتا تھا۔ 90 کی دہائی میں جن دنوں میں نے باقاعدگی کے ساتھ یہ پروگرام سننا شروع کیا تب اس کی میزبانی قمر جمیل صاحب اور نیلوفر عباسی صاحبہ کیا کرتے تھے۔ نیلوفر عباسی سامعین کے خطوط پڑھا کرتیں اور قمر جمیل صاحب اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کرتے۔ اس پروگرام کی مقبولیت اور سننے والوں کی بذریعہ خطوط شرکت کا یہ عالم تھا کہ خطوط کی کثرت کی وجہ سے اپنے خط کے جواب کے لیے سامعین کو اکثر و بیشتر کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا۔
قمر جمیل صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے اور زبان و بیان پر عبور کی وجہ سے نہایت عمدگی سے جوابات کا سلسلہ جاری رکھتے، ساتھ ہی نیلوفر عباسی صاحبہ (جو کہ اس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر قمر علی عباسی صاحب کی شریکِ حیات تھیں) اپنے مخصوص لب و لہجے میں خطوط پڑھتیں تو پروگرام کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔
کئی سامعین گویا اس پروگرام کے مستقل ممبر تھے، فی الحال چند نام ذہن میں آ رہے ہیں ، جن میں سعید انور صائم، غلام مرتضیٰ موندرہ، مشتاق محسن، شبانہ ڈار اور غلام قادر عاجز شامل ہیں ، گو کہ یہ فہرست بہت طویل ہے ، یہاں صرف چند نام ہی ذکر کئے ہیں۔
مختلف ریڈیو پروگراموں شرکت کرنے والے مستقل سامعین کے حوالے سے الگ سے ایک قسط لکھنے کا سوچا ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں یہاں موجود 80 و 90 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان بالخصوص کراچی ، حیدرآباد و خیرپور کے مستقل سامعین سے گزارش کروں گا کہ اس دور کے ایسے سامعین کے نام جو اکثر و بیشتر بذریعہ خطوط شرکت کرتے تھے، بذریعہ انباکس یا پھر ذیل میں کمنٹس کی صورت میں شیئر کریں ، تاکہ جو نام میرے ذہن سے محو ہوگئے ہوں، وہ تازہ ہوپائیں۔
اسکے لئے میں احباب کا پیشگی شکرگزار ہوں اور امید ہے دوست زیادہ سے زیادہ سامعین کے نام شیئر کریں گے۔
نور احمد