ریڈیو نامہ ، ابتدائے عشق۔ حصہ اول۔ | تحریر: نور احمد
سن 80 کی دہائی میں ہوش سنبھالتے ہی ریڈیو کو اپنے ماحول کا حصہ پایا۔ نانا ابو، ماموں اور اپنے دونوں بڑے بھائیوں کو اکثر باقاعدگی سے ریڈیو سنتے ہوئے دیکھتا۔
نانا ابو رات کو آٹھ بجتے ہی حویلی سے باہر کھلے صحن میں چارپائی ڈال لیتے اور ریڈیو سینے پر رکھ کر (اونچا سنائی دینے کی وجہ سے)پوری آواز کے ساتھ بی بی سی کی اردو نشریات سننا شروع کرتے۔
ماموں کو بھی اکثر اوقات ریڈیو سننے میں مشغول پایا۔
اسی طرح بڑے بھائی بھی کرکٹ و ہاکی کمنٹری سمیت مختلف پروگراموں کے رسیا تھے۔
اوپر پروگراموں و نشریات کے حوالے سے جو تفصیلات لکھی ہیں، ابتداءً تو ان کا کچھ معلوم نہ تھا بعد میں ۔ذرا بڑے ہوئے تو ان کے بارے پتہ چلا۔
باقی ایک بات مجھے ہمیشہ سوچ میں مبتلا رکھتی کہ جب نانا ریڈیو سنتے ہیں تو انٹینا نکلا ہوا نہیں ہوتا لیکن ماموں عام طور پر ریڈیو کا انٹینا نکال کر ہی رکھا کرتے ہیں، آخر اسکی وجہ کیا ہے ؟
بہرحال کافی عرصہ بعد جب میڈیم ویو و شارٹ ویو نشریات کے متعلق معلومات ہوئی تو یہ معاملہ واضح ہوا۔
آس پاس تو یہ ماحول تھا اور آتے جاتے ریڈیو کی نشریات سننے کو ملتی تھیں لیکن براہِ راست مجھے خود سے ریڈیو چلانے و سننے کا ایک طرح سے کہہ لیں کہ اتفاق نہ ہوا تھا یا یوں کہیں کہ موقع نہ ملا تھا، دوسرے یہ کہ ابھی کوئی خاص دلچسپی بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔
پھر سنہ90ء کے آس پاس جب میں اپنے پرائمری اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں تھا، اچانک ایک دن شام کے وقت کوئی پونے آٹھ بجے کے قریب بڑے بھائی نے مجھے ریڈیو تھماتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کام سے باہر جارہے ہیں لہذا مجھے تاکید کی کہ ابھی تھوڑی دیر میں ریڈیو پہ کہانی سنائی جائے گی، وہ مجھے سننی ہے اور جب وہ واپس آئیں گے تو انہیں سنانی ہوگی۔
بہرحال تھوڑی دیر بعد گرجدار آواز کے مالک عظیم سرور صاحب نے اعلان کیا کہ اب بچوں کے لیے چٹنی و اچار بنانے والی “فلاں” کمپنی کے تعاون سے کہانی پیش کی جائے گی۔ اور غالباً اس دن وہ کہانی “مسٹر جیدی” (اطہر شاہ خان) نے پیش کی تھی، خیر بعد ازاں شیخ چلی کی وہ کہانی بڑے بھائی کے گوش گزار کی، اس بات سے قطعاً بے خبر رہتے ہوئے کہ یہ میری ریڈیو سے محبت کی ابتدا تھی۔
اب تو روزانہ شام 7:50 پہ نشر ہونے والی اس کہانی کا انتظار رہتا، ان دنوں ہفتے میں کوئی دو دن مسٹر جیدی یا شہزاد رضا کہانی سنایا کرتے اور بقیہ دن خوش بخت شجاعت اور تاج بخت سنایا کرتی تھیں۔
اس دوران کیونکہ میں نے بچوں کے رسائل بھی پڑھنا شروع کردئیے تھے اور ساتھ میں یہ کہانی کا سلسلہ جاری تھا، تو کچھ ہی عرصے میں میرے یادداشت کے ذخیرے میں کافی ساری کہانیاں جمع ہوگئی تھیں، اور میں ہر کچھ روز بعد شمار کرتا کہ اب اتنی کہانیاں ہوگئیں ہیں ،اب اتنی ہوگئیں ہیں۔
ساتھ ہی ایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک دن ہمارے اس وقت کے کلاس ٹیچر نے ہمیں ایک کہانی دورانِ تدریس بڑے اچھے انداز میں سنائی ، جب وہ اپنی کہانی مکمل کر چکے تو میں نے کہا “جناب یہ کہانی رات سات بجکر پچاس منٹ پر ریڈیو پہ سنائی گئی تھی
انہوں نے کہا کہ میں نے بھی وہیں سے سنی ہے، پھر اس دن سے انہوں نے میری یہ ذمہ داری لگادی کہ میں روزانہ کی بنیاد پر پچھلی شام میں سنائی گئی کہانی پوری جماعت کو سنایا کروں گا۔ لہٰذا اب وہ جیسے ہی کلاس میں آتے ، تو کہتے کہ کل والی کہانی سب کو سناؤ اور یہ سلسلہ کافی دن جاری رہا۔ بعد ازاں کیسے یہ سلسلہ صرف اس ایک کہانی سے ریڈیو کی پوری نشریات تک پھیل گیا۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ میری ریڈیو سے وابستگی بچوں کیلئے نشر کی جانے والی کہانی سے ہوئی۔ اور یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا۔ پھر ایک دن جب میں حسبِ معمول کہانی کے انتظار میں ریڈیو لئے بیٹھا تھا اور کہانی کے شروع ہونے کا وقت بھی ہوگیا تھا، لیکن اس روز کہانی پیش نہیں کی گئی، یہاں تک کہ رات آٹھ بجے کا خبرنامہ شروع ہوگیا۔ اور میں نے مایوسی کے عالم میں ریڈیو ایک طرف کو رکھ دیا۔ پھر اگلے دن بھی بالکل ویسے ہی ہوا۔ کہانی جو اتنی باقاعدگی کیساتھ طویل عرصے سے نشر ہوتی آ رہی تھی اسکا یوں اچانک سے پیش نہ ہونا اور اس سے متعلق کسی طرح کا کوئی اعلان نہ ذکر، مجھے یہ سب عجیب و خلافِ توقع لگا۔
جب بڑے بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کہانی چونکہ بطور ایک کمرشل پروگرام نشر ہوتی تھی تو اسے پیش کرنے والے ادارے نے اسے جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو اسے فوراً بند کردیا گیا ہوگا اور یہ کہ کمرشل پروگرام ایسے ہی اچانک شروع بھی ہوتے ہیں اور ان کا اختتام بھی ایسے ہی ایکدم ہوتا ہے۔
بہرحال اگلے کئی روز مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری رہی۔ پورے چوبیس گھنٹے میں وہی پانچ منٹ کی کہانی ہی گویا میری دلچسپی کا محور و مرکز تو تھی۔ یہ سب محسوس کرتے ہوئے بھائیوں نے سمجھایا کہ ریڈیو پر اور بھی کافی مزے مزے کے پروگرام ہوتے ہیں، میرا قطعاً یہ خیال نہ تھا کہ کوئی پروگرام اس کہانی کا متبادل ہوسکتا ہے پھر بھی ناچار مختلف اوقات میں ریڈیو سننا شروع کر دیا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں غیر محسوس طور پر، میں کئی پروگراموں کا مستقل سامع بن گیا۔
اور پروگراموں اور ریڈیو اسٹیشنوں کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، ان سب کا تذکرہ آگے کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ، آج صرف ایک پروگرام کا سرسری سا ذکر کروں گا اور وہ ہے “بچوں کی دنیا”۔
ہفتے میں صرف ایک بار یعنی چھٹی والے دن نشر ہونے والے اس پروگرام کی طرف فوراً توجہ مبذول ہونا، ظاہر ہے اس وقت اپنی عمر کے اعتبار سے قرین از قیاس بھی تھا۔
ریڈیو پاکستان کراچی سے 10 سے 11 کے درمیان پیش کئے جانے والے اس پروگرام کی میزبانی ان دنوں تر وتازہ آواز کی مالک مُنّی باجی (اختر النساء بیگم/پروین اختر) کیا کرتی تھیں۔ بچے چاہے اسٹوڈیو میں موجود ہوں یا بذریعہ ریڈیو سن ریے ہوں ، انہیں پوری طرح سے منہمک رکھنا انہی کا خاصہ تھا۔ بچوں کیلئے شفقت و نرمی اور ایک اچھے استاد کی خوبیوں سے مالا مال مُنّی باجی۔ کبھی شائبہ تک نہ ہوتا تھا کہ منفرد ہنسی کے ساتھ آواز میں کمال کا چنچل پن و بچپنا سموئے مائیکرو فون کے دوسری طرف بیٹھی خاتون اپنی عمر کی 60 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکی ہیں۔
یہ ایک گھنٹہ کیسے گزرتا تھا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔ایک طرف بچوں کیلئے کہانیاں ، لطیفے، نظمیں، نغمے ہوتے، تو ساتھ اکثر و بیشتر کسی معروف شخصیت کو بھی مدعو کیا جاتا۔ ان دنوں حکیم محمد سعید صاحب اکثر پروگرام کا حصہ ہوا کرتے۔ اور میری ہمیشہ یہ شدید خواہش رہتی کہ کاش میں بھی دوسرے بچوں کی طرح اسٹوڈیو میں موجود ہوتا اور حکیم سعید صاحب و مُنّی باجی کو سامنے بیٹھ کر سنتا۔
بہرحال اس پروگرام میں مستقل سنوائے جانے والے ایک گیت “ٹِک ٹِک کرے گھڑی” کے بالکل مصداق بچپن کا وہ دور بھی اب وقت کے پہیے کے ان گنت چکروں اور گھڑی کی مستقل ٹِک ٹِک کے دوسری جانب کہیں کھو سا گیا ہے ، صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں ۔ باقی ان شاء اللہ اگلی قسط میں۔
نور احمد