سمارٹ ایگریکلچر کی ترقی سے نوجوان اپنے دیہات کی جانب واپس پلٹیں گے۔ | تحریر : سارا افضل

آج کل ہر فورم پر ” آرٹیفیشل انٹیلی جنس  کا تذکرہ ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ  آج جو ممالک اس میں سرمایہ کاری کریں گے اور اسے اپنے تمام شعبوں میں ضم کریں گے وہی باقی رہیں گے ۔یہ سمارٹ ٹیکنالوجیز ، محض چند گیجٹس نہیں بلکہ ایک پورا نظامِ عمل ہے جو پیداوار ، کام کی رفتار اور کارکردگی کو  کئی سو گنا بہتر کرتا ہے اور اس کو بروقت اپنانا یقیناً بہترین نتائج کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) زیادہ تر فنانس ، ہیلتھ کیئر اور اسمارٹ سٹی سلوشنز جیسے شعبوں میں لاگو ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر  کاشتکاری کا شعبہ  اسمارٹ ٹیکنالوجیوں میں  نسبتاً  پیچھے رہ گیا،لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں اپ گریڈ نگ کی سب سے  زیادہ صلاحیت بھی  ہے۔ دنیا بھر میں  پرانے طریقے اب فرسودہ  ہو چکے ہیں زمین چاہے کتنی بھی زرخیز کیوں نہ ہو اگر اس کی دیکھ بھال کے طریقوں میں بہتری نہیں لائی جائے گی تو  پیداواری نتائج مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے ۔ اعدادو شمار کے مطابق چین کی تقریبا 25 فیصد افرادی قوت زراعت سے وابستہ ہے ، لیکن یہ شعبہ زیادہ تر چھوٹے ، خاندانی ملکیت والے فارمز  پر مبنی تھا ۔ ایک اندازے کے مطابق   2028   تک چین  کی 14 فیصد سے زائد آبادی 60 سال سے زائد عمر کی ہو  گی اور اس کا مطلب یہ  ہے کہ کاشتکاری کے  اس  شعبے میں” مزدور ہاتھ ” تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا  نیز روایتی طریقوں اور مقامی فارمز  سے طلب و رسد  پوری نہیں ہو سکے گی۔    چینی حکومت کو اس بات کا مکمل ادارک تھا کہ مستقبل میں خوراک کی ضرورت بہت زیادہ ہوگی کیونکہ ہر ملک کو اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کے لیے اناج پانی کی ضرورت ہے اس لیے مستقبل میں ایسے کسی بھی خطرے سے بچنے کے لیے  چین نے کئی دہائیاں پہلے ہی منظم و مربوط منصوبہ بندی کی ، وسائل کو محفوظ کرنے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے ” خوراک کا تحفظ”  قومی سیکورٹی پالیسی کا حصہ  بنا یا گیا۔ چین نے اس شعبے میں مکمل منصوبہ بندی اور بڑی سرمایہ کاری کی  اور   چین میں “سمارٹ ایگریکلچر ” اعلی معیار کی زرعی ترقی اور مجموعی دیہی بحالی کا ایک اہم جزو ہے۔ انسانی طاقت کو مشینوں اور انسانی دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ تبدیل کرنے کے لیے اور چین کے زرعی شعبے کی آزاد تکنیکی مسابقت کو فروغ دینے کے لیے   چین نے بائیو ٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور  سمارٹ آلات  کاانضمام کرتے ہوئے  اسمارٹ زراعت کے لیے  صنعتی ٹیکنالوجی کا حامل ایک نظام قائم  کیا ہے اور مختلف کاروباری اداروں اور صنعتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسمارٹ زراعت کو منظم انداز میں فروغ دیا  جا رہا ہے۔ خاص طور پر ، چین نے اعلی سطح کے ڈیزائن کو مضبوط بنانے ، تکنیکی تحقیق کو فروغ دینے ، ایک امتیازی سبسڈی میکانزم قائم کرنے ، صنعتوں اور دیہات  کو مربوط کرنے ، عملی شعبوں میں ٹیلنٹ کی تربیت  اور ان کی  حوصلہ افزائی  پر بہت منظم انداز میں کام کیا ہے۔ ملک نے قومی سطح پر  زرعی تکنیکی جدت طرازی کے  60اتحاد قائم کیے ہیں۔بنیادی زرعی ٹیکنالوجیز ،  بیجوں اور پودوں کی افزائش کے اہم منصوبوں میں کامیابیوں کے  لیے نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے  جس میں پہاڑی علاقوں میں بنیادی نوعیت کے بیجوں کی افزائش  و نمو کے ساتھ ساتھ زرعی میکانائزیشن میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔زرعی پیداوار کو مستحکم کرنے اور اناج کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے، تقریبا 1 ملین زرعی فیلڈ پروفیشنلز نے اہم زرعی مصنوعات کی پیداوار بڑھانے کے لیے مشاورت فراہم کی ہے اور وہ    160 کاؤنٹیز   جنہیں  دیہی بحالی کے حصول  کے سلسلے میں  مدد کی ضرورت تھی وہاں پر  ڈیڑھ ہزار سے زائد  ماہرین کو بھیجا گیا  ۔ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے، مقامی حکومتیں اور ترقی پذیر کسا ن حکومت کے ساتھ شامل ہوئے اور ان منصوبوں کا  درجہ بہ درجہ اطلاق شروع کیا گیا  جس کے نہایت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ۔ حالیہ برسوں میں چین نے درآمد شدہ سویابین پر انحصار کم کرنے کے لئے متعدد طریقوں کو اپنایا ہےمقامی پیداوار کو بڑھانے کے لئے ایک بڑے اقدام کے طور پر ، چینی حکومت نے گزشتہ سال جینیاتی ترمیم کی ٹیکنالوجیز  کے تجارتی استعمال کو سویابین سمیت بنیادی غذائی فصلوں تک بڑھا دیا تھا ۔ اس سے پہلے طویل عرصے سے چین میں اس طرح کی ٹیکنالوجی کپاس اور پپیتے تک ہی محدود رہی ہ تاہم اس کا دائرہ کار وسیع ہو رہاہے اور اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں ۔

چین میں ٹیکنالوجی کی مدد سے  زرعی علاقوں میں تجربات بھی  کیے گئے . چین کے سب سے بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز میں سے ایک ، پن ڈوڈو نے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اسٹرابیری فارمنگ کو بہتر بنانے کے لیے ساڑھے تین ماہ کی مدت پر مشتمل تجربات کا آغاز کیا۔ اس میں تجربہ کار کسانوں کی ٹیم کے  مقابل  سائنسدانوں کی ٹیم تھی ۔  یوں سمجھیے کہ کاشتکاری کے عمل کے مروجہ روایتی طریقوں  کے مد مقابل مصنوعی ذہانت، امیج ریکگنیشن اور مشین لرننگ الگورتھم تھا۔ نتائج بہت واضح تھے سائنسدانوں کی ٹیم نے اسٹرابیری کی اوسطاً  196 فی صد زیادہ  پیداوار حاصل کی ۔ اس تجربے کا  مقصد کسانوں کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں یہ دکھانا  ، سمجھانا اور قائل کرنا تھا کہ ٹیکنالوجی کس طرح پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔یہ تجربہ کوئی واحد تجربہ نہیں ہے ، ہواوے، علی بابا اور جے ڈی کئی سالوں سے چین میں مقامی کسانوں کے ساتھ مل کر  مرغیوں اور مویشیوں کی مانیٹرنگ کے تجربات کر رہے ہیں اور مصنوعی ذہانت اور امیج ریکگنیشن جیسی ٹیکنالوجیز کسانوں کو لائیو اسٹاک کی نگرانی اور انتظام میں مدد دے رہی ہیں۔ مزید برآں، حکومت مقامی کسانوں کو ڈرون استعمال کرنے کی ترغیب بھی دے رہی ہے اور علی بابا ، جے ڈی اور پنگ ڈو ڈو    نے کسانوں کو اپنے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اجناس فروخت کرنے کی تربیت  دی ہے  ۔ ان پلیٹ فارمز نے  کولڈ چین لاجسٹک نیٹ ورک سسٹم تیار کیا ہے جو کھیت سے   لے کر  ،  مارکیٹ تک  سب سے بہتر راستے کی منصوبہ بندی کرکے نقل و حمل کے دوران زرعی مصنوعات کے نقصان اور معیار ک میں کمی  کے امکانات کو  کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان اقدامات نے کئی دیہی علاقوں کی صورتِ حال کو تبدیل کر دیا ہے، زراعت میں افرادی قوت کی کمی ہو رہی تھی  کیونکہ زیادہ تر نوجوان بہتر زندگی کی تلاش میں شہری علاقوں کا رخ کر چکے ہیں ان اقدامات اور ان کے نتیجے میں آنے والی بہتری کے بعد   امید  واثق ہے کہ  نوجوان نسل  ایک” کاروباری کسان”  کے طور پر اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپس جانے کے لیے مائل ہو گی  اور زرعی شعبے میں نوجوانو ں  کی شرکت یقینا ” سمارٹ ایگریکلچر ” کے فروغ   کی رفتار میں اضافہ کرے گی ۔

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link