چین فرانس تعلقات کی نئی سمت۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

چینی صدر شی جن پھنگ اور ان کے فرنچ ہم منصب ایمانوئل میکرون کے درمیان حالیہ ملاقات اور اہم امور پر اتفاق رائے کو  دنیا بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ چین اور فرانس کا دو بڑے اور ذمہ دار ممالک کے طور پر عالمی اثرورسوخ ہے اور دنیا سمجھتی ہے کہ دونوں ملک مل کر کئی بڑے مسائل کو حل کرنے یا کم از کم ایک سمت کی جانب اشارہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دورے کے دوران فریقین نے سرکاری اداروں کے درمیان تعاون کے 18 معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ہوا بازی، زراعت، عوامی تبادلے، ماحول دوست ترقی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری تعاون جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا۔

چینی صدر نے واضح کیا کہ دنیا تبدیلی اور بدامنی کے ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جو ایک صدی میں نہیں دیکھا گیا ہے، چین اور فرانس کو آزادی کو برقرار رکھنا چاہئے اور مشترکہ طور پر “نئی سرد جنگ” یا بلاک تصادم کو روکنا چاہئے۔ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا عمل جاری رکھنا چاہئے ، ایک رنگا رنگ دنیا میں مشترکہ طور پر ہم آہنگی کے ساتھ بقائے باہمی کو فروغ دینا چاہئے ، ایک طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے اور مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔

چینی صدر نے چین فرانس سفارتی تعلقات کے قیام کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر فرانس کا تیسرا سرکاری دورہ کرنے پر خوشی کا اظہار  بھی کیا۔شی جن پھنگ نے کہا کہ فریقین کو اُس جذبےپر کاربند اور پرعزم رہنا چاہئے جس نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی رہنمائی کی، یعنیٰ آزادی، باہمی تفہیم، طویل مدتی وژن اور باہمی مفاد، اور اس جذبے کو نئے دور کی نئی خصوصیات سے مالا مال کرنا چاہئے۔دونوں ممالک کو جیت جیت کے لئے تعاون کو آگے بڑھانا چاہئے اور مشترکہ طور پر سپلائی چین کو منقطع کرنے  یا پھر اسے کاٹنے کی مخالفت کرنی چاہئے۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین فرانس کے ساتھ اسٹریٹجک رابطے برقرار رکھنے، ایک دوسرے کے بنیادی مفادات کا احترام کرنے اور دوطرفہ تعلقات کے اسٹریٹجک استحکام کو مستحکم کرنے، باہمی فائدہ مند تعاون کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانے اور دوطرفہ تجارت میں ترقی اور توازن کو آسان بنانے کا خواہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ چین فرانس سے مزید معیاری مصنوعات درآمد کرنے کا خواہاں ہے، اور امید کرتا ہے کہ فرانس چین کو مزید ہائی ٹیک اور ہائی ویلیو ایڈڈ مصنوعات برآمد کرے گا۔چینی صدر نے کہا کہ دونوں فریقوں کو ترقیاتی حکمت عملیوں کو بڑھانا چاہئے، ایرو اسپیس اور ایوی ایشن جیسے روایتی شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنا چاہئے، جوہری توانائی، جدت طرازی اور مالیات میں تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے اور گرین انرجی، اسمارٹ مینوفیکچرنگ، بائیو میڈیسن اور مصنوعی ذہانت جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں تعاون کو بڑھانا چاہئے۔

شی جن پھنگ نے یہ بھی واضح کیا کہ چین نے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر تک رسائی کو مکمل طور پر آزاد بنایا ہے اور ٹیلی مواصلات، طبی اور دیگر خدمات میں مارکیٹ تک رسائی کو تیز کرے گا۔چین مزید فرانسیسی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کے لئے خوش آمدید کہتا ہے اور امید کرتا ہے کہ فرانس چینی کمپنیوں کو فرانس میں سرمایہ کاری اور تعاون کے لئے ایک مستحکم کاروباری ماحول اور مستحکم ترقی کی توقعات فراہم کرے گا.انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایک خوشحال ثقافت کے حامل بڑے ممالک کی حیثیت سے چین اور فرانس کو عوامی اور ثقافتی تبادلوں کو تیز کرنا چاہئے، ثقافت اور سیاحت کے “چین فرانس سال” کی مختلف سرگرمیوں کا انعقاد جاری رکھنا چاہئے، اور ثقافتی آثار کے مشترکہ تحفظ اور بحالی اور عالمی ورثہ مقامات کے مابین “جوڑ” میں فعال طور پر تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔

شی جن پھنگ نے مزید فرانسیسی دوستوں کے چین کے دورے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ چین قلیل مدتی دوروں کے لیے ویزا فری پالیسی میں فرانس سمیت 12 ممالک کے لیے 2025 کے آخر تک توسیع کرے گا۔انہوں نے کہا کہ چین اگلے تین سالوں میں 10 ہزار سے زیادہ فرانسیسی طالب علموں کی میزبانی کرنے اور چین میں یورپی نوجوانوں کے تبادلوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا خواہاں ہے۔

چینی صدر نے یہ بھی کہا کہ چین پیرس اولمپک کھیلوں کی کامیاب میزبانی میں فرانس کی حمایت کرتا ہے اور ایک اعلیٰ سطحی وفد فرانس بھیجے گا۔چین موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور دیگر شعبوں میں فرانس کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے، اقوام متحدہ کی سمندری کانفرنس کی کامیاب میزبانی میں فرانس کی مدد کرنے اور دونوں ممالک کے متعلقہ قومی پارکس اور قدرتی ذخائر کے جوڑ  کی حوصلہ افزائی کرنے کا خواہاں ہے۔چین مصنوعی ذہانت کی حکمرانی اور بین الاقوامی مالیاتی نظام میں اصلاحات جیسے شعبوں میں فرانس کے ساتھ بات چیت اور مواصلات کو مضبوط بنانے کا بھی خواہاں ہے۔

شی جن پھنگ نے اس موقع پر فلسطین اسرائیل تنازعہ اور یوکرین بحران پر چین کے اصولی موقف کا خاکہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کا طویل المیہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے اور عالمی برادری کو اس سلسلے میں قدم اٹھانا چاہیے۔چین تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ غزہ میں فوری، جامع اور پائیدار جنگ بندی کے لئے کام کریں، چین اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے، اور فلسطین کو اس کے جائز قومی حقوق کی بحالی اور دو ریاستی حل کو دوبارہ شروع کرنے کی حمایت کرتا ہے، تاکہ مشرق وسطی میں دیرپا امن حاصل کیا جاسکے۔یوکرین بحران کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ چین نے یوکرین بحران کا آغاز نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس کا فریق ہے اور نہ ہی اس میں شریک ہے، انہوں نے کہا کہ چین تماشائی بننے کے بجائے امن کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔شی جن پھنگ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ چین کسی بھی تیسرے ملک کی جانب سے  یوکرین بحران کو “قربانی کا بکرا” بنانے یا بدنام کرنے یا “نئی سرد جنگ” کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرتا ہے۔

SAK

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link