خوشی کا گیت۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ابھی حال ہی میں چین کے گوانگ شی خود اختیار علاقے  کے دورے کے دوران ایک قصبے لیو لانگ لیے جانے کا اتفاق ہوا  جس کا مطلب خوشی کا گیت ہے۔ یہ نام اس باعث بھی دیا گیا ہے کہ ماضی میں یہ علاقہ غربت سے دوچار تھا اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث باہر سے رسائی بھی ایک مسئلہ تھی۔ چینی حکومت نے اپنی انسداد غربت مہم کے دوران اس علاقے پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی اور  دورافتادہ اور دشوار گزار پہاڑی علاقے میں رہنے والے افراد کو اس ٹاؤن میں منتقل کیا گیا ، جہاں سے ان کی خوشحالی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ چین کی انسداد غربت کی کوششوں میں اہدافی پالیسیوں کو بھی نمایاں اہمیت حاصل رہی ہے۔انہی میں پسماندہ اور دور دراز علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی اور دوبارہ آباد کاری  بھی ایک اہم پہلو ہے۔ دوبارہ آباد کاری کی بدولت لوگوں کو ایسے علاقوں سے نکالا گیا جو قابل رسائی نہ تھے اور بنیادی سہولیات سے محروم تھے۔ ایسے افراد کو  مختلف قابل رسائی علاقوں میں آباد کیا گیا اور انہیں صحت ،تعلیم ،بنیادی ڈھانچہ اور دیگر تمام سہولیات گھر کی دہلیز پر فراہم کی گئیں،مقامی صنعتوں کو ترقی دی گئی ،روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے گئے ،دیہی سیاحت کو پروان چڑھایا گیا اور ان باشندوں کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ اسی ٹاؤن کی بات کی جائے تو حیرت انگیز طور پر تین کمرے والا ایک اپارٹمنٹ پاکستانی روپے میں دو لاکھ چالیس ہزار کے عوض لوگوں کو ملکیتی حقوق پر دیا گیا ہے ، جس سے چینی حکومت کی عوامی فلاح و بہبود کی سنجیدگی نمایاں ہوتی ہے۔

اس ٹاؤن کے باسیوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے وضع کردہ موئثر پالیسیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔ یہاں انڈسٹری پارک تعمیر کیا گیا ہے جہاں مقامی لوگ اپنی مصنوعات فروخت کر سکتے ہیں۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ اس گاؤں کے انتظام کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ایک کمپنی کی طرز پر کام کیا گیا ہے اور جس طرح کمپنی اپنے منافع کے حصول کو ہمیشہ نمایاں ترجیح دیتی ہے بالکل اُسی انداز سے گاؤں میں بھی عوام کے مفادات کو مقدم رکھا گیا ہے۔ مقامی مصنوعات کی بڑی منڈیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے  ای کامرس پلیٹ فارم کا بھی عمدگی سے استعمال جاری ہے۔ مقامی دیہی باشندے انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی کی بدولت ای کامرس سے صحیح معنوں میں مستفید ہو رہے ہیں اور بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑی شہروں تک اُن کی مصنوعات پہنچ رہی ہیں۔

اسی طرح حکومت کی جانب سے یہاں کی مقامی ثقافت کا بھی عمدگی سے تحفظ کیا گیا ہے ۔ ثقافت کو معیشت کے اہم پہلو کے طور پر ضم کیا گیا ہے ۔ یہاں منعقدہ مختلف ثقافتی تقریبات میں ملکی و غیر ملکی سیاح گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ثقافتی سیاحت کی بدولت مقامی باشندوں کو  روزگار کے نئے مواقع بھی ملے ہیں اور اُن کی آمدن میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہاں کے غیر مادی ثقافتی ورثے کو نسل درنسل منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہاں آنے والے سیاح جہاں چین کی متنوع ثقافت کے بارے میں جان سکتے ہیں وہاں مقامی باشدے بھی سیاحت کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس علاقے کی ایک اور خوبی جس نے بے حد متاثر کیا وہ مقامی صنعتوں کی ترقی بھی ہے۔چاہے وہ کپڑے کی روایتی صنعت ہو یا پھر ریشم کے کیڑے پالنے کی صنعت ، یہاں مقامی لوگ اپنی صنعتوں سے جڑے رہتے ہوئے  ترقی کر رہے ہیں۔ ایک ثقافتی مرکز کے دورے کے دوران طلباء کو بھی مشغول دیکھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ چین اپنے ثقافتی ورثے اور مقامی صنعتوں کو نسل درنسل منتقل کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔   

یہ امر قابل زکر ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ، جو عالمی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے ، چین نے پورے ملک سے غربت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں 850 ملین سے زیادہ چینی غربت کی دہلیز سے اوپر اٹھ چکے ہیں۔ ورلڈ بینک کے بین الاقوامی غربت کے معیارات کے مطابق، اسی عرصے کے دوران چین کی غربت کے خاتمے کی آبادی عالمی کل آبادی کا 70 فیصد سے زیادہ ہے جو یقیناً عالمی ترقی و خوشحالی میں چین کی شراکت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link