گرین اور ڈیجیٹل بیلٹ اینڈ روڈ تعاون۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

بوآؤایشیائی فورم (بی ایف اے) کی سالانہ کانفرنس 2024 چین کے صوبہ حہ نان کے ساحلی قصبے  بوآؤمیں اختتام پذیر ہو گئی۔2001 ء میں قائم ہونے والا بوآؤایشیائی فورم ایک غیر سرکاری اور غیر منافع بخش بین الاقوامی ادارہ ہے جو علاقائی اقتصادی انضمام کو فروغ دینے اور ایشیائی ممالک کو ان کے ترقیاتی اہداف کے قریب لانے کے لئے پرعزم ہے۔ اس سال بی ایف اے کی سالانہ کانفرنس 26 سے 29 مارچ تک منعقد ہوئی، جس کا موضوع “ایشیا اور دنیا: مشترکہ چیلنجز، مشترکہ ذمہ داریاں” تھا۔ کانفرنس میں 60 سے زائد ممالک اور خطوں سے تقریباً 2,000 مندوبین اور تقریباً 40 ممالک اور خطوں سے 1،100 سے زیادہ صحافیوں نے شرکت کی۔

اختتامی پریس کانفرنس میں فورم کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے کہا گیا کہ فورم میں شریک تمام فریق آج دنیا کو درپیش چیلنجوں سے بخوبی آگاہ ہیں، تمام ممالک کو مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سست عالمی معاشی بحالی اور علاقائی تنازعات کا تسلسل شامل ہے۔ صرف مل کر کام کرکے ہی ان چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ایشیا پائیدار ترقی کے ایک نئے دور کی قیادت کر رہا ہے اور چین کووڈ 19 کے بعد کے دور میں عالمی معیشت کی پائیدار ترقی کا ستون ہے۔فورم کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے چین کے اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ چین اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھا رہا ہے اور مزید کھل رہا ہے ، اور توقع ہے کہ ملک عالمی اقتصادی ترقی میں سب سے بڑا شراکت دار رہے گا۔

فورم کے دوران شرکاء نے کئی اہم امورپر اتفاق رائے کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ جدت طرازی ترقی کے لیے لازوال محرک قوت ہے اور دنیا بھر کے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے پر اقدامات میں تیزی لانی چاہیے۔اسی دوران شرکاء کی جانب سے گرین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی ضرورت پر زور دیا گیا، مندوبین نے دنیا بھر میں سبز ترقی اور پائیدار انفراسٹرکچر میں انقلاب لانے کے امکانات کے بارے میں اپنی بلند توقعات کا بھی اظہار کیا۔چینی صدر شی جن پھنگ کے سبز بی آر آئی کے وژن پر جوش و خروش کا اظہار کرتے ہوئے ماہرین نے یہ توقع ظاہر کی کہ آئندہ دہائی میں بی آر آئی کے سبز پہلو کو بڑھانے کے لئے وافر مواقع موجود ہیں۔ماہرین کے نزدیک دنیا صدر شی جن پھنگ کے اس وژن کو دیکھنے کی خواہاں ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ کے اگلے 10 سال زیادہ سرسبز و شاداب ہوں گے۔ ایسے بہت سے رکن ممالک ہیں جو چین سے گرین پروجیکٹس، گرین ٹیکنالوجی اور گرین فنانس جیسے شعبہ جات میں تعاون کے متلاشی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بی آر آئی کے اگلے 10 سالوں میں شراکت دار ممالک کے لئے گرین ترقی کے تناسب کو بڑھانے کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔

اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون پر ایک پینل مباحثے کے شرکاء نے کہا کہ 2013 میں اپنے قیام کے بعد سے چین کے تجویز کردہ بی آر آئی نے بنیادی ڈھانچے کی ” ہارڈ کنکٹیویٹی ” اور ٹیکنالوجی کے “سافٹ کنکٹیویٹی” کو گہرا کرنے سے کافی فوائد حاصل کیے ہیں۔بی آر آئی نے گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً 150 ممالک اور خطوں میں ہزاروں منصوبے شروع کیے ہیں، جن سے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 سے 2022 تک ، چین اور بی آر آئی شراکت دار ممالک کے مابین تجارت کی مجموعی قدر  19.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے ، جس کی اوسط سالانہ ترقی کی شرح 6.4 فیصد ہے۔ چین اور شراکت دار ممالک کے درمیان مجموعی طور پر دو طرفہ سرمایہ کاری 380 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس میں چین سے 240 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔شرکاء نے اب تک اس اقدام کے ٹھوس نتائج کو سراہتے ہوئے بی آر آئی پارٹنر ممالک میں معاشی تبدیلی اور صنعتی تنظیم نو کو فروغ دینے میں اس اقدام کی ٹیکنالوجی جہت “ڈیجیٹل سلک روڈ” کے کردار پر بھی زور دیا۔شرکاء کے خیال میں “ڈیجیٹل سلک روڈ” منصوبہ بی آر آئی میں شریک ممالک کی مجموعی ترقی کے ساتھ ساتھ خود اس اقدام کے لئے بھی اہم ہے، اس منصوبے سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تعاون اور اشتراک کو مضبوط بنانا چاہئے۔یوں ، مقامی لوگوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور ان کی جدت طرازی کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

فورم کے دوران مندوبین نے بی آر آئی کے لئے گرین فنانسنگ کو بڑھانے کے لئے چین اور ترقیاتی شراکت داروں کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس ضمن میں چین اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے مابین ٹھوس اور اچھے تعاون کی ضرورت ہے۔شرکاء کے نزدیک تکنیکی استحکام کو بڑھانے اور مناسب منصوبوں کی تیاری میں کم آمدنی والے ممالک کی مدد کے لئے چین، کثیر الجہتی اداروں اور دیگر متعلقہ فریقوں کی مشترکہ حمایت نمایاں اہمیت کی حامل ہے۔اس خاطر ، ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی حکومتوں میں صحیح منصوبہ سازی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے مزید تکنیکی تعاون قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی تصور ہے  جن پر کم آمدنی والے ممالک نے آج سے 40، 50 سال پہلے عمل کیا تھا اور آج یہ ممالک متوسط آمدنی والے ممالک کہلاتے ہیں۔ لہٰذا کم آمدنی والے نئے ممالک کو  مدد کی زیادہ ضرورت ہے۔چین اس حوالے سے پہلے بھی عملی اقدامات پر عمل پیرا ہے لیکن کثیر الجہتی اداروں کو بھی اس میں مدد کے لیے سرمایہ لگانا چاہیے تاکہ مشترکہ خوشحالی کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور  ترقیاتی ثمرات سے دنیا کے سبھی عوام بلاتفریق مستفید ہو سکیں۔

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link