NH

ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ۔ | تحریر: نذر حافی

ایچی سن کالج کے پرنسپل مسٹر مائیکل تھامسن کے  استعفے پر آپ کی نظر  ہوگی۔ اسٹاف کے نام انہوں نے اپنے لکھے خط میں کہا  ہے کہ بورڈ کی سطح پر جو ہو رہا ہے، وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ انتہائی بری گورننس کے تسلسل کی وجہ سے میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں ۔  ایک وفاقی وزیر کے بچوں کے جرمانہ معافی معاملے پر اختلافات کے بعد یہ سب ہوا ہے۔  آسٹریلوی نژاد مائیکل تھامسن کو آخر حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے وطن کی گورننس پر بات کریں؟

اگر گورننس ہی دیکھنی ہے تو عوام پر ٹیکس لگانے کی ہماری گورننس دیکھیں۔  اپنے گھر میں اب بور کھود کر پانی نکالنے پر بھی  ٹیکس لگ چکا ہے، بجلی کا میٹر آپ اپنا بھی خرید کر لگائیں تو وہ گویا آپ نے کرائے پر لیا ہے، اُس کا بھی ماہانہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ۔۔مزید گورننس کسے کہتے ہیں؟

ابھی گزشتہ روز ہی ۲۷ لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا  نادرا سے چوری ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔  ڈیٹا چوری میں ملتان، پشاور اور کراچی کے نادرا دفاتر ملوث پائے گئے۔ یہ چوری شُدہ  ڈیٹا ملتان سے پشاور اور پھر دبئی گیا،  نادرا ڈیٹا کے ارجنٹائن اور رومانیہ میں فروخت ہونے کے شواہد بھی ملے۔اب ایسے کاروبار ہماری  بیوروکریسی اور اشرافیہ تھوڑے کرتی ہے۔ان چیزوں کا گورننس سے آخر کیا تعلق ہے؟

گزشتہ کئی سالوں سے تفتان بارڈر کے حوالے سے عوام کو یہ پریشانی ہے کہ بارڈر پر ہمارا ڈیٹا جمع کرنے والے سرکاری کارندوں کا  لوگوں کے ساتھ برتاو اور ڈیٹا جمع آوری کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے۔  عوامی شکایات پر کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی دی جانی چاہیے۔  ڈیٹا چوری ہونے کا خدشہ ظاہر کرنے والوں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ آج ہی ایران میں اغواء ہونے والے تین  پاکستانیوں کو  ہم نے بیس ، بیس لاکھ روپے دے کر بازیاب کرایا ہے۔ کیا یہ گڈ گورننس نہیں؟

لوگ اللہ کا شکر ادا کریں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر  ہمارے  سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اور شرح خواندگی نیجریا سے بھی کم ہے؟ آخر نائجریا والے بھی تو انسان ہیں۔  عوام کو فخر کرنا چاہیے کہ نسل در نسل اُن کے بچوں کو کیسی یکساں تعلیم  فراہم کی جا رہی ہے۔ بے شک ہمارے ہاں  حکومتیں بدلتیں رہیں لیکن عوام کے بچوں کیلئے تعلیم کا معیار یکساں ہی رہا۔ گزشتہ ستتر سالوں سے ہم عوام کے بچوں کو جو تعلیم دے رہے ہیں کیا ایسی یکساں تعلیم بغیر  گڈگورننس کے ممکن ہے؟

اطلاعات ہیں کہ گزشتہ روز  ایک مسافر گاڑی اسلام آباد سے کوہستان جاتے ہوئے بشّام کے مقام پر دہشت گردی کا نشانہ بن گئی۔ایک خود کش دھماکے کے نتیجے میں مرنے والوں میں پانچ  چینی شہری اور ان کا ڈرائیور شامل ہے۔  اب پھر کہیں گڈگورننس کا ایشو نہ بنا دیا جائے۔ یہ خود کش کوئی آسمان سے نہیں آتے۔ ہمارے قیمتی ایسٹس پر بات کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ  دھماکے کے فوراً بعد سارے علاقے کو سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا ، بغیر کسی تاخیرکے مرنے والے تمام افراد کی لاشوں کو فوراًاسپتال منتقل کر دیا گیا۔

 اس کے بعد چینی انجینئرز سے اظہارِ یکجہتی کیلئے صدرِ مملکت سمیت اعلی شخصیات نے مذمتی بیانات جاری کئے،  چیئرمین واپڈا  نے داسو پراجیکٹ کا دورہ کیا اور آج  چینی باشدوں کی حفاظت کیلئے  وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطح کا سیکیورٹی اجلاس ہوا ، اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت وفاقی وزرا، آئی جیز اور دیگر متعلقہ حکام، سیکیورٹی ایجنسیز کے سربراہان شریک ہوئے ہیں۔اتنے اہم اجلاس میں مسلسل پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکیورٹی سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔  کیا یہ سب گُڈ گورننس نہیں؟

پتہ نہیں کہ لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارا اس وقت مسئلہ گڈ گورننس نہیں بلکہ ہمارا سب سے بڑا اور قومی مسئلہ  چودھری پرویز الٰہی صاحب کی ناساز طبیعت ہے، اورساتھ ہی محترمہ مریم نواز صاحبہ کے تھانوں اور سکولوں کی دورہ جات ہیں۔۔۔ باقی سب فضولیات ہیں۔

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link