آج کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیےجمہوریت کی شمع روشن رکھنی ہوگی۔ | تحریر : سارا افضل
حالیہ دنوں دنیا نے ” جمہوریت” کے موضوع پر دو بڑے اہم ایونٹ دیکھے ایک امریکا کی جانب سے ۱۸ سیول میں منعقدہ تیسری “سمٹ فار ڈیموکریسی ” جب کہ دوسرا بیجنگ میں “جمہوریت: تمام انسانیت کے لیے مشترکہ قدر” کے موضوع پر منعقدہ تیسرا بین الاقوامی فورم ۔ یہ ایونٹ ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئے ہیں کہ جب دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرنے والے ۵۰ سے زائد ممالک میں یا تو انتخابات ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں یا پھر ہونے والے ہیں ، یعنی یہ سال ” انتخابات کاسال ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر حملے ہو رہے ہیں۔ اختلاف رائے کی آواز دبائی جا رہی ہے، انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ غلط معلومات ، خاص طور پر سوشل میڈیا لوگوں کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے جس سے ایک طرف جھوٹی خبرو ں اور افواہوں سے نسل پرستا نہ رویے اور غیر ملکیوں سے نفرت بڑھ رہی ہےتو دوسری طرف غربت، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عدم اعتماد بڑھ رہا ہے ۔یہ صورتِ حال گھمبیر ہے اور اس میں بہتری کے لیے تمام ممالک کو اپنے اپنے ملک میں گورننس کو بہتر کرنا ہوگا اور طرزِ حکمرانی میں بہتری لانی ہوگی اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا ہوگا۔
جمہوریت کیا ہے؟ اس کی تشریح یا مثال کوئی ایک ملک یا معاشرہ نہیں ہے بلکہ طرزِ حکمرانی میں” عوام سے اور عوام کے لیے “کا عملی ثبوت اور نتائج کا ہونا ضروری ہے ۔ شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس صورتِ حال سے نمٹنے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ماحول تشکیل دینے کے لیے غربت، عدم مساوات، بھوک اور بے روزگاری کو شکست دینے،سماجی، ثقافتی اور معاشی حقوق کو پورا کرتے ہوئےپائیدار ترقی کو آگے بڑھا کر سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر کر نا بہت ضروری ہے۔
یہ دونوں ایونٹ گو کہ مختلف ممالک میں اور مختلف موضوعات کے تحت ہوئے تاہم دونوں فورمز میں موضوع بحث ” جمہوریت” ہی رہی اور شرکا اور ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جمہوریت کی کوئی ایک ” مخصوص قسم یا تعریف” نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تاریخی ورثے اور ترقیاتی نتائج سے حاصل ہونے والا سیاسی نظام ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مختلف ممالک میں جمہوریت کی جڑیں اپنی تاریخی و ثقافتی روایات میں پیوست ہیں اور اپنے لوگوں کے حالات اور توقعات کے مطابق پروان چڑھتی ہیں۔ جمہوریت کا مقصد تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا تحفظ اور فروغ ہے اور اس کے لیے مغربی طرزِ جمہوریت کو اپنانا ضروری نہیں ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آج تمام مغربی ممالک یا مغربی طرزِ جمہوریت والے ممالک کےعوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کی حکومتیں عام مفادات کو فروغ دینے کے لیے نہیں بلکہ “امیر اور طاقتور کے مفادات کو فروغ دینے” کے لیے کام کر رہی ہیں۔
سیول میں ہونے والی سمٹ میں اٹلی کے سابق وزیر اعظم میسیمو ڈی علیما ان بہت سے مقررین میں سے ایک تھے جنہوں نے پیسے کی سیاست کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ان کی رائے میں وہ شاندار وقت گزر چکا ہے جس میں جمہوری اصول ‘ایک سر، ایک ووٹ’ تھا نیا اصول ‘ایک ڈالر، ایک ووٹ’ ہے۔ جدید میڈیا “کنٹرولڈ پولیٹیکل اوپینیئن ” کے لیے پیسے پر زور دیتا ہے۔ اب مغربی ممالک کو عوامی پالیسیز کے ذریعے جمہوریت کی تعمیر نو کرنی چاہیے تاکہ عدم مساوات اور سماجی ناانصافی ختم ہو اور پیسے کی طاقت کو محدود کیا جاسکے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور شمالی امریکہ میں وسیع پیمانے پر “مالیاتی پلوٹوکریٹس” نے اپنے مفادات کے لیے میڈیا اور سیاست کو کرپٹ کیا ہے، جس کی وجہ سے عوام اور سیاسی شعبے کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا ہے۔اب سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز ‘ بعض اوقات جذباتی اور غیر منطقی انداز میں ووٹرز پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیےجاتے ہیں۔امریکا میں گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ذاتی ڈیٹا میں کی گئی ہیرا پھیری کے باعث دنیا میں اس بات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ انتخابات بہترین پالیسی تجاویز رکھنے والے امیدوار نہیں بلکہ وہ لوگ جیت سکتے ہیں جو ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں کی رائے کو کنٹرول کرتے ہیں۔’وہ حکومت جو انتخابات کے ذریعے بنتی ہے ،مغربی جمہوری تصور کے تحت اسے دنیا بھر میں جمہوری حکومت کا ” معیار” بنا دیا گیا ہے، جو ایک “غلط فہمی” ہے۔ ماضی قریب میں کئی ایسی مثالیں ہیں کہ جب کہیں بھی مقامی ثقافت ، عوام کے مزاج اور ماحول کے برعکس زبرستی اس نظام کو لاگو کیا گیا ہے اس سے افراتفری اور ابتری ہی پھیلی ہے۔ عراق اور لیبیا میں نام نہاد جمہوریت نافذ کرنے کی کوششوں کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے ہیں اور مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔
جمہوریت کے حوالے سے ان دونوں فورمز میں متعدد ممالک کے سربراہان اور سیاسی و معاشرتی امور کے ماہرین نےاس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا میں جمہوریت کا محض کوئی ایک ہی ماڈل نہیں ہے ، یہ ایک طرزِ عمل ہے اس لیے جمہوریت کے متنوع نقطہ نظر کا احترام کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی ملک میں مقامی عناصر سب سے اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باہر سے کوئی نظام ان پر مسلط نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا جائے تو اس کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے ماہرین نے اگر ایک طرف امریکا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا کہ امریکہ کا بنیادی مقصد جمہوریت کو “جیو پولیٹیکل چیلنجز ، یا عالمی طاقت کے کھیل میں اپنےمخالفین کے خلاف” ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے تو دوسری طرف چین کی مثال دیتے ہوئے چینی کے ہمہ گیر عوامی طرزِ جمہوریت کی تعریف کی اور اس کی اس خوبی کا اعتراف کیا کہ چین کے پاس ‘لوگوں کو سننے ان کو جواب دینے کے لیے ایک بہتر نظام موجود ہے۔چینی جمہوریت اور گورننس کام کرتی ہے۔ ہمیں چین سے سیکھنا چاہیے نہ کہ چین کو لیکچر دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
چینی طرزِ جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ اس کی جڑیں چین کی تاریخ و ثقافت سے منسلک ہیں ۔ چین عوام کی مکمل جمہوریت پر عمل پیرا ہے، جو قانون پر مبنی جمہوری انتخابات، مشاورت، فیصلہ سازی، نظم و نسق اور نگرانی کو قوانین اور ادارہ جاتی انتظامات کے ایک سلسلے کے ذریعے ضم کرتا ہے۔چین جمہوری طرز عمل کے تنوع کی حمایت کرتا ہے اسی لیے ہر فورم پر چین اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ ہر ملک کو اپنے عوام کی امنگوں اور اپنے حالات کے مطابق حکمرانی اور ترقی کی راہ منتخب کرنے کا اختیار دیا جائےاور اس میں کسی بھی دوسرے ملک کو مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔چینی رہنما پارٹی اس بارے میں بہت زیادہ تحقیق کرتی ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں، کیا محسوس کر رہے ہیں، ان کے تجربات کیا ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔چین میں ” مغربی جمہوریت” نہیں ہے لیکن چینی جمہوریت ہے جس میں حکومت اپنے لوگوں کی آواز سنتی ہےاور وہی کرتی ہے جو اس کے لوگ چاہتے ہیں.”
مغربی ممالک کو اپنی جمہوریت پر فخر ہے کیونکہ ان کی جمہوریت فاشزم اور نازی ازم کے خلاف جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران قربانیوں کی بھاری قیمت ادا کی گئی تھی ۔لیکن آج کے دور میں ان کے لیے اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہےمغربی جمہوریت کا ماڈل اپنی ساکھ اور کشش کھو چکا ہے اور مغربی معاشروں میں جمہوری سمجھوتے اتفاق رائے کے زوال کا باعث بن رہے ہیں ۔ اس لیے طرزِ حکمرانی کے لیے مغربی طرزِ جمہوریت واحد انتخاب نہیں ہونا چاہئے۔مغربی ریاستوں کو ایسے سیاسی تصورات کو قبول کرنا چاہیے جو ان کی اپنے سیاسی تصورات سے مختلف ہوں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کو ایک مشترکہ مستقبل کی حامل کمیونٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے ۔چین کی جانب سے تجویز کردہ بین الاقوامی اقدامات بشمول ون بیلٹ، ون روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو مسابقت اور بالادستی کے نقطہ نظر سے مختلف نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں جس کے ذریعے عالمی نظام ایک مشترکہ دنیا کو دیکھتا ہے۔
سیول سمٹ میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریز کی تقریر کے یہ جملے ” جمہوریت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ” جب میں بڑا ہو رہا تھا میرے اپنے ملک پرتگال پر آمریت کی حکمرانی تھی۔ اس آمریت نے نہ صرف پرتگال کے عوام بلکہ اس کی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت لوگوں پر بھی ظلم کیا۔ لیکن میں جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنے اور یہ دیکھنے کے لیے بھی زندہ رہا کہ کس طرح انسانی حقوق اور جمہوری اقدار لوگوں اور معاشروں کو یکساں طور پر بلندی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ جمہوریت کی شمع اس وقت روشن رہتی ہے جب تک اس کےاصولوں کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہ شعلہ اس وقت دم توڑتا ہے جب ان اصولوں کو جھٹلایا جاتا ہے اور پھر یہ نوبت آتی ہے کہ ایسا کرنے والے ممالک خود کو اندھیرے میں پاتے ہیں۔
آج کے دور میں دنیا کے تمام ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت کے اصل رنگ و روپ کو برقرار رکھیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو جمہوری اداروں اور نظاموں کے مرکز میں رکھا جائے۔آج ہمیں دنیا کے 1.8 بلین نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے جمہوری نظام اور اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے جمہوریت کی شمع روشن رہے۔