ناخدا اور معاشرہ نامی کشتی۔ | تحریر: عارف بلتستانی
ظلم کی اندھیری رات ہے۔ منادی امید سحر لئے بلند ہوتا ہے۔ درد بھرے لہجے میں ایک صدا بلند کرتا ہے۔ وہ “حی علیٰ خیر العمل” کی صدا ہے۔ اس صدا میں اتنا درد تھا کہ خوابیدہ لوگ بیدار ہوئے اور بیدار، متحرک ہوگئے۔ منادی ہر باضمیر انسان کو آواز دے رہا ہے کہ معاشرہ نامی کشتی کو غربت، جہالت، پس ماندگی، غلامی، فحاشی اور عریانیت کے طوفان سے بچانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر نئی نسل کو نجات کے ساحل پر لنگر انداز کرنا ہے تو ہمیں کشتی کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ معاشرہ نامی کشتی کسی خاص مکتب فکر کا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے ہر فرد کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر کشتی میں سوار ایک مسافر بھی کشتی میں سوراخ کرے تو پوری کشتی مسافر سمیت ڈوب جائے گی۔
کشتی کو ڈوبنے سے بچانے اور ساحل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ کشتی میں سوار ہر مسافر اس کی حفاظت کرے اور ناخدا کی نصیحت پر عمل کرے۔ ناخدا کا یہی ہم و غم ہوتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان سے پُر یہ سفینہ انسانیت دشمن حملہ آوروں کے تیر و تبر اور تند و تیز طوفانوں سے بچا کر صحیح و سلامت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے، لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ کشتی کی مرمت کرے۔ یہ منادی جو کشتی کا ناخدا بن گیا ہے، اپنے چند دوستوں کے ساتھ تند و تیز طوفانوں کو چیرتے، دشمن کے مذموم عزائم کا مقابلہ کرتے اور خود کو سوشلزم اور کمیونیزم کی دلدل سے بچاتے ہوئے معماروں کی تلاش میں نکلتا ہے۔ چنداں کوشش کے بعد کچھ ایسے معمار ملتے ہیں کہ ان کے معماری کے اصول صدیوں تک کام کر دکھاتے ہیں، یہ معمار حضرات ان ملاحوں کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ کشتی ہر قسم کے طوفانوں سے بچانے کی ان کے اندر صلاحیت آجاتی ہیں۔
اب یہ ناخدا اور اس کے دوست اس قدر پختہ ہوچکے تھے کہ وہ خود جیسے ہزاروں ناخداؤں کی تربیت کرکے معاشرہ نامی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچا سکتے تھے۔ ان معمار اور ناخداؤں کی تربیت کے اصول اس قدر انسانی، عقلانی اور فطرت کے اصولوں پر مبنی تھے کہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ایسے ناخدا پیدا ہو رہے ہیں، جو اس سفینے کو ہر خطرے سے نجات دینے کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مسافر کس رنگ و نسل سے ہے یا کس مذہب و مکتب سے تعلق رکھتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ انسان ہو۔
اس منادی اور ناخدا کا نام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہے، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ جنہوں نے اپنے معماروں (علامہ مرتضیٰ حسین صدر الفاضل، علامہ آغا سید علی موسوی، علامہ صفدر حسین نجفی) کی مشاورت پر ناخداؤں کی ایک ٹیم تیار کی اور اس کا نام “آئی ایس او” رکھا گیا۔ جو بغیر رنگ و نسل و ذات، مذہب و مکتب میں تفریق کئے انسانی اقدار کے احیاء کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔ ناخداؤں کی یہ ٹیم کشتی کو طوفانوں سے بچا کر ساحل پر لنگر انداز کرنے میں جان دینے سے دریغ نہیں کرتی۔ جس کی واضح مثال خود ناخدا شہید ڈاکٹر نقوی ہیں، جو طبیب جسمی کے ساتھ طبیب معنوی بھی تھے۔
پاکستان کے معاشرہ نامی کشتی کے مسافروں نے ان ناخداؤں کی وہ قدر نہیں کی، جو کرنی چاہئیے تھی۔ اگر ان معماروں کے بتائے ہوئے اصولوں پر پاکستانی مقتدر اور بااثر طبقہ تھوڑا تأمل کرتا تو آج شاری بلوچ اتنی تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ملکی مفادات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو اڑا نہ دیتی، جبکہ ادھر ناخداؤں کی ٹیم آئی ایس او کے ایک کارکن، محبِ وطن نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خودکش بمبار کو روک کر ملک کی تعمیر و ترقی پر آنچ آنے نہیں دی۔ اگر ان ناخداؤں کی پچاس سالہ تنظیمی سرگرمیوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ دینِ مبین اور مملکت خداداد پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کی تعمیر و ترقی بالخصوص تعلیم و تربیت کے شعبے میں وہ کردار ادا کیا ہے کہ جس کی گواہی پاکستانی معاشرہ اور تاریخِ پاکستان دے رہی ہے۔
لیکن ان کا صلہ جبری گمشدگیوں کی صورت میں دے رہی ہے۔ جو ملک اپنے محب وطنوں کی حفاظت نہ کرسکے، وہ کیسے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرسکے گا؟ لیکن پھر بھی کشتی کو ساحل پر لنگر انداز کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ محنت نام نہاد مقتدر ادارے اور بااثر شخصیات کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ یہاں شہید ڈاکٹر کا وہ جملہ یاد آرہا ہے۔ “جب کام خدا کی خاطر ہو تو اس میں تھکاوٹ کیسی۔” آج بھی یہ ٹیم اپنے ناخدا کی نصیحتوں پر چل رہی ہے۔ یہ شہید ڈاکٹر کے خلوص کا اثر ہے۔ ان کے خلوص میں اتنا اثر تھا کہ قوم کا درد رکھنے والا ہر شخص اس جیسے کارواں میں شامل ہونے کا عزم کرتا ہے۔ احساس کے چشمے سے پھوٹنے والا پانی دریا کی موجوں کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے، جن کے ساحل سے ٹکرانے کی صدا پیغام بن کر دور تک سنائی دیتی ہے۔ یہ صدا آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی گونج رہی ہے۔