چین کی قطبی مہم کا پانچواں تحقیقی سٹیشن، چین کی ۴۰ سالہ قطبی مہم میں ایک اور شاندار باب کا اضافہ۔ | تحریر : سارا افضل، بیجنگ

رواں سال چین کی قطبی مہم کی ۴۰ ویں سالگرہ ہے۔انٹارکٹیکا میں چین کے پانچویں تحقیقی اسٹیشن چِنلنگ  اسٹیشن نے بدھ کی صبح براعظم  جنوب بعید کی  خلیج ٹیرا نووا میں اپنے تحقیقی کام کا آغاز کردیا۔ یہ اسٹیشن انٹارکٹیکا میں چین کا پانچواں سائنسی تحقیقی اسٹیشن  ہے اس سے پہلے چین نے انٹارکٹیکا میں چار تحقیقی مراکز تعمیر کیے تھے جن میں چانگ چینگ، ژونگشان، تائیشان اور کنلون شامل ہیں۔ یہ چین کی تیسرا انٹارکٹک ریسرچ بیس ہے جو 1980 کی دہائی کے آخر میں تعمیر کیے گئے چانگ چینگ اور ژونگشان کے ساتھ سال بھر کام کر ے گا  اس کے علاوہ یہ بحر الکاہل میں کام کرنے والا چین کا پہلا اسٹیشن بھی  ہے۔

پولر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف چائنا کے مطابق چنلنگ اسٹیشن میں موسم گرما کے دوران ۸۰   اور سردیوں میں ۳۰ افراد کی گنجائش ہے۔ ۲ ہزار ۴۴۵ مربع میٹر رقبے پر مشتمل اس اسٹیشن کی بیرونی شکل سدرن کراس کونسٹیلیشن سے ملتی جلتی ہے، جو منگ شاہی دور کے نامور  لیجنڈری ، امیرالبحر ، سمندری مہم جو   اور سفارت کار ژینگ ہی کے اعزاز میں ایک منفرد ڈیزائن ہے۔قدیم چینیوں نے ایسٹرونیویگیشن ایجاد کیا  اور ژینگ ہی اپنی متعدد بحری مہمات کے دوران اسے استعمال کرنے والے اولین افراد میں سے تھے۔

نئے انٹارکٹک ریسرچ اسٹیشن کے تمام بڑے حصے چین میں بنائے گئے  ہیں جن  میں اندرونی ہارڈ ویئر پہلے سے نصب تھا اور پھر  ان کی تنظیم و ترتیب کے لیے انہیں ایک دوسرے مقام پر منتقل کیا گیا۔

انجینئرز نے اسٹیشن پر ہلکے  لیکن بھرپور قوت  والا مٹیریل استعمال کیا ، جس سے یہ جزیرے پر منفی 60 سینٹی گریڈ تک کا انتہائی درجہ حرارت اور نقصان دہ ماحول کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ یہ سٹیشن  ماحولیاتی ماحول ، سمندری ماحول ، حیاتیاتی ماحولیات اور دیگر علاقوں پر کثیر الجہتی مشاہدے ، نگرانی اور سائنسی تحقیق کے کام  میں سہولت فراہم کرے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ انٹارکٹیکا کے بارے میں انسانیت کے علم کو بڑھانے، جنوبی براعظم کی پرامن اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے اور مشترکہ تحقیق کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا اور انٹارکٹک کے بحیرہ راس کے قریب پتھریلے، شدید ہواوں والے جزیرے پر تعمیر کیا جانے والا یہ سٹیشن سائٹ پر منفرد ماحولیاتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط مقامی نظام اور سبز ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔

سٹیشن کو  تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ایک مرکزی مشترکہ کمرہ ہے جو کھانے اور کام کے  کے لیے استومال ہوتا ہے اور موسم گرما کی دو رہائشی شاخوں اور لیبارٹریز  سے جڑتا ہے۔ موسم سرما کے ہاسٹل مرکز کی دوسری منزل پر واقع ہیں۔اس کا  انٹیریئر ڈیزائن انتہائی مربوط ہے جسے ماڈیولز میں تعمیر کیا گیا تھا تاکہ انہیں سائٹ پریکجا  کیا جا سکے. مرکزی عمارت کا طویل محور ہوا کی موجودہ سمت سے مطابقت رکھتا ہے جب کہ برف کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے گراؤنڈ فلور کے کچھ حصوں کو بلند کیا گیا ہے۔اس طرح، اسٹیشن کی تعمیر کے لیے  کم سے کم رقبہ استعمال کیا گیا ہے  اور مقامی منظر نامے پر اس کے اثرات کو بھی کم سے کم کیا گیا ہے، انٹارکٹک میں سائنسی اسٹیشن کی تعمیر نو مینز لینڈ میں تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا، ہر ریسرچ اسٹیشن ایک خود کفیل بنیادی ڈھانچے سے لیس ہے جو  پانی کی فراہمی اور فضلے کو ٹھکانے لگانے جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔اسٹیشن پر سامان اور لوگوں کی نقل و حمل کے لئے ہیلی کاپٹر ضروری ہے اسی لیے اسٹیشن سے تقریبا 1 کلومیٹر نیچے ایک ہیلی پیڈ بھی ہے۔ یہ علاقہ اس سہولت کے لئے ایک توانائی اسٹیشن کے طور پر بھی وقف ہے یہاں توانائی کے دو نئے ذرائع، فوٹو وولٹک انرجی اور ہوا کی توانائی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ نئے اسٹیشن کے لیے توانائی کی فراہمی کا 60 فیصد ان دو ذرائع سے حاصل کیا جارہا ہے۔

بحیرہ راس زمین کے چند قطبی علاقوں میں سے ایک ہے جو تقریباً اپنی اصل حالت میں ہی ہیں ۔ یہ سمندری حیاتیاتی تنوع اور ایک مکمل ماحولیاتی نیٹ ورک کا حامل علاقہ  ۲۰۱۶ میں باضابطہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا سمندری محفوظ علاقہ قرار دیا گیا تھا ، جس کا کل رقبہ  ایک  اعشاریہ ۵۵ ملین مربع کلومیٹر ہے۔

اس علاقے میں آئس شیلفس کے نیچے کئی فعال آتش فشاں موجود ہیں ، جن میں سے متعدد راس آئس شیلف کے نیچے واقع ہیں۔ ویران انٹارکٹک پانیوں میں، فعال آتش فشاں کے ہائیڈرو تھرمل وینٹس قطبی حیاتیات کے لئے توانائی کے قیمتی ذرائع فراہم کرتے ہیں.”بحیرہ راس کے ساحل کو ایک جغرافیائی برتری بھی حاصل ہے ، جس میں ٹرانس انٹارکٹک پہاڑوں سے وسیع گلیشیئر سمندر میں بہہ رہے ہیں ، جو مشہور راس آئس شیلف تشکیل دیتے ہیں۔اس سے قبل چھ ممالک نے بحیرہ راس کے خطے میں سات تحقیقی اسٹیشن قائم کیے تھے ۔ان میں امریکہ ، نیوزی لینڈ ، جنوبی کوریا ، روس ، اٹلی اور جرمنی شامل ہیں۔

چین سائنسی تحقیق اور قطبی علاقوں کی پرامن ترقی پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے اور چین نے اب تک انٹارکٹیک میں ۴۰ اور آرکٹک میں ۱۳ مہمات سر انجام دی ہیں ، جن میں بہت سارے سائنسی اعداد و شمار اور متعدد نمونے حاصل کیے گئے ہیں۔پولر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف چائنا کا کہناہے  کہ چنلنگ اسٹیشن محققین کو انٹارکٹیکا میں پانی، گلیشیئرز، موسم، ماحول اور جانوروں پر تحقیقات کی ضمن میں  معاونت فراہم کرے گا۔

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link