شاعری سچ بولتی ہے۔ | تحریر: سحر شعیل
شاعری ہر حساس دل کی آواز ہے۔ سخن فہم ہونا بھی خداداد صلاحیت ہے بالکل اسی طرح جیسے شاعر ہونا اور اپنے تخیل کو لفظوں میں ڈھالنا ایک خداداد جوہر ہے۔ شاعر اپنے تخیل کی آبیاری کرتا ہے اور اپنے فن کو سینچتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کسان اپنی فصل کا خیال رکھتا ہے۔
شاعری ایک مواصلاتی زبان ہے جو مخاطبین کو روحانی اور فکری طور پر مہمیز کرتی ہے، اور ایک نئی تشخیص فراہم کر کے مختلف مواقعات اور احساسات کو بیان کرتی ہے۔ یہ ہمیں زندگی کے جوہری حقائق کا احساس کراتی ہے، مختلف جہات میں سوچنے اور محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ شاعری کے ذریعے لوگ اپنے جذبات اور خیالات کو بہترین طریقے سے اظہار کرتے ہیں، یہ قارئین کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ شاعری کے ذریعے معنوی گہرائیاں اور حقائق کوپیش کیا جاتا ہے جو عام زندگی کی حقیقتوں کو بہتر سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
چند اشعار کا فکری جائزہ لیتے ہیں تاکہ شاعری کی معنوی گہرائیوں کو پرکھ سکیں۔
میر تقی میر کا شعر ہے
بارے دنیا میں رہو، غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
اس مطلع میں ایک حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں آئے ہیں تو خوشی اور غم کا سنگم تو رہے گا، ایسے زندگی بسر کرو کہ سدا یاد کیے جاؤ۔ شاید اسی کو حیاتِ جاوداں کہتے ہیں کہ ایسے کام کر جاؤ تاکہ تمہارا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے۔
غالب کا ایک مشہورِ زمانہ شعر ہے
رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
کس قدر خوش بیانی سے غالب نے حقیقت کا آئینہ دکھایا ہے کہ دکھوں کا عادی ہو جانے والا انسان دکھی نہیں رہتا۔ مسلسل تکالیف ہوں تو انہی میں آرام ملتا ہے اور پھر غم آسان لگنے لگتے ہیں۔ جب انسان رنج و مشکلات کا سامنا کرتا ہے، تو اس کی طاقت اور استقامت بڑھ جاتی ہےزندگی میں رکاوٹوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ درد مسلسل ہو تو درد نہیں رہتا۔
الطاف حسین حالی کا مشہورِ زمانہ شعر ہے
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
اس شعر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عبادت اور دین اس میں ہے کہ انسان دنیا میں دوسروں کی مدد کے لئے مصروف ہو۔ اسلامی روایات میں، عبادت نہایت وسیع معنوں میں ہے اور صرف نماز یا روزہ سے ہی محدود نہیں ہوتی۔ عبادت میں دوسروں کی مدد، بھلائی کی راہوں میں ہمدردی، انصاف، اور صدقہ کا اہم کردار ہے۔ دینی ایمان اور عبادات کے ذریعے انسان کو اہل خیرات اور انسانیت کے لئے مصروف ہونے کی ہدایت ملتی ہے، تاکہ انسان دنیا میں دوسروں کی مدد اور بھلائی میں مصروف رہے۔
حضرت علامہ محمد اقبال کا شعر ہے کہ
دِل سے جو بات نِکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پروازمگر رکھتی ہے
بالکل درست بات کہی ہے حضرت علامہ نے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور دوسروں کے دل میں اتر جاتی ہے۔ اگر لفظ دل سے نکلیں گے تو پر تاثیر ہوں گے اور دل کے نہاں خانوں تک اتر جائیں گے۔ نصیحت اگر دل سے نکلے گی تو سامع پر اپنا اثر چھوڑ دے گی۔ اسی طرح دعا بھی اگر دل سے نکلے گی تو طاقتِ پرواز رکھے گی اور سیدھا عرش تک جا پہنچے گی۔ دیکھیے علامہ صاحب نے کتنی خوش اسلوبی سے ایک حقیقت کو شعر میں ڈھالا ہے۔
وسیم بریلوی کا ایک عمدہ شعر ہے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے کہ چراغ روشنی کی علامت ہے وہ جہاں جلے گا روشنی پھیلائے گا۔ چاہے وہ کسی بھی مکاں میں ہو اپنی روشنی سے کبھی محروم نہیں کرے گا بالکل اسی طرح خوش اخلاق یا اچھا انسان جہاں ہو گا بھلائی ہی پھیلائے گا۔ اسے بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ وہ کس جگہ پر ہے۔ وہ اپنی اچھائیوں سے ہمیشہ دوسروں کو فائدہ ہی دے گا۔
ناصر کاظمی کا ایک بہترین شعر ہے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
شاعر لفظوں کی ترتیب سے ایک اٹل حقیقت کو بیان کر رہے ہیں کہ یہ دنیا ایسی ثبات ہے کہ اس کے معاملات اور امور ایسے ہی چلتے آئے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ اس کائنات میں انسان کا وجود سب سے نا پائیدار ہے جو آج ہے کل نہیں۔ کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہے گا، انسان دنیا میں اپنی باری پر آتا ہے اور اپنی باری پر چلا جاتا ہے۔ دنیا کے معمولات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک انسان کی جگہ اسی جیسا کوئی اور آ جاتا ہے۔ خلا پر ہو جاتا ہے اور کائنات یونہی قائم ہے۔
احمد فراز کا ایک شعر حاضرِ خدمت ہے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
انسانی فطری عادات کا بہت عمدگی سے تجزیہ کیا گیا ہے کہ ہم تاریکیوں کا، مصائب کا یا حالات کا شکوہ تو کرتے ہیں مگر ان کو سدھارنے کے لئے اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔ ہمیں چاہیے کہ حالات کی ستم ظریفی کا رونا رونے کی بجائے اپنے حصے کی شمع جلائیں اور اپنا فرض ادا کریں
رحمان فارس کا ایک شعر ہے
نکتہ چیں ! شوق سے دن رات مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں، ہنر بچتا ہے
کمال کی بات کہی ہے شاعر نے کہ کوئی تنقید کرے تو اسے عیب نکالنے دو۔ تنقید کرنے والے کی ہر بات جو سر آنکھوں پر رکھو کیوں کہ تقید ہمارے عیبوں کو دور کرے گی اور عیب نکل جائیں گے تو پیچھے صرف ہنر ہی بچے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ تنقید کی بھٹی میں تپ کر ہی ہنر کندن بنتا ہے اور انسان اوجِ کمال تک پہنچتا ہے اس لئے دوسرے عیب نکالیں تو خوش دلی سے قبول کر لینا چاہیے۔
اردو شاعری کا دامن ایسے لاکھوں موتیوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنے آپ میں ایک شاہ کار ہیں۔ اسی لئے شاعری دل کی آواز کہلاتی ہے کیوں کہ یہ جہاں احساسات کو بیان کرتی ہے وہیں زندگی کے حقائق بھی اس میں جھلکتے ہیں۔ شاعری میں کوئی ماورائے ادراک گفتگو نہیں ہوتی بلکہ عام فہم حقائق کو ہی شاعر شعر کی صورت لڑی میں پروتا ہے۔ ایسے اشعار اردو شاعری کا اثاثہ ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اپنے ورثے کی حفاظت میں اپنا حصہ ڈالیں۔