چینی مارکیٹ کا انتخاب خطرہ نہیں بلکہ موقع ہے، یہ ایک دعوی ہی نہیں ایک دعوت بھی ہے۔ | تحریر :سارا افضل، بیجنگ

ورلڈ اکنامک فورم  کی 54 ویں سالانہ کانفرنس کا موضوع “اعتماد کی تعمیر نو” تھا  ، جو  دنیا کی موجودہ صورتِ حال کو واضح کر رہا تھا ۔ روس-یوکرین اور اسرائیل – غزہ  تنازعے کے علاوہ  ، آب و ہوا کی تبدیلی،مصنوعی ذہانت کے تیزی سے عروج اور عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز سمیت متعدد عالمی خطرات  نے ایک بے یقینی کی صورتِ حال کو جنم دیا ہے اور ایسے میں کیا پالیسی اختیار کی جائے ، کس پر اعتبار کیا جائے اور کس سمت سفر کوآگے بڑھایا جائے اس کے حوالے سے دنیا تذبذب کا شکار ہے۔ ڈیووس میں اسی  صورتِ حال سے نکلنے کے حل تلاش کرنے اور  کامیاب تجربات کے اشتراک سے بہتری کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے شرکا نے  تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔

چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے ڈیووس میں دنیا کی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘امتیازی’ تجارتی رکاوٹیں عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ ہر سال تجارت اور سرمایہ کاری کے نئے امتیازی اقدامات سامنے آتے ہیں تاہم کوئی بھی رکاوٹ  عالمی معیشت کے بہاؤ کو نہ تو سست کر سکتی ہے اور نہ ہی  روک سکتی ہے”۔ چینی وزیرِ اعظم کی اس بات کو اگر صرف چین کے ساتھ پیش آنے والے ماضی قریب کے کچھ معاملات کے پس منظر میں دیکھیں تو  اکتوبر میں امریکہ نے جدید ترین اے آئی  چپس کی برآمد ات پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا دریں اثنا، یورپی یونین نے بھی  چینی الیکٹرک گاڑیوں کی سبسڈی کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا.ان دو مثالوں کے علاوہ بھی دیگر ممالک کے حوالے سے ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں ایک فریق کی ہٹ دھرمی دوسروں کے ساتھ باہمی اعتماد کو کمزور کرتی آئی ہے۔

چینی وزیراعظم نے اعتماد کی بحالی، تعاون کو مضبوط بنانے اور عالمی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے کے لیے میکرو اکنامک پالیسی کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانے، کثیر الجہت تجارتی نظام کے تحفظ،تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری،عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے استحکام اور ہموار بہاؤ کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھنے،سائنسی اور تکنیکی ترقی کے لیے ایک کھلا، منصفانہ اور غیر امتیازی ماحول پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے، ماحول دوست ترقی پر تعاون کو مضبوط کرنے اور  سبز تبدیلی کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے  کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد کرنا، ترقیاتی خلا کو پر کرنا اور عالمی سطح پر فائدہ مند اور جامع عالمی معیشت کی تعمیر کی کوشش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ چین کی ترقیاتی کامیابیوں اور طرزِ عمل کے حوالے سے انہوں نے اس امر کا اظہار بے حد فخر کے ساتھ کیا کہ  چین ایک ایسا ملک ہے جو اپنے وعدوں کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ٹھوس اقدامات کے ساتھ اپنے الفاظ کا احترام کرتا ہے۔ انتہائی خلوص، بھرپور کوششوں اور ٹھوس نتائج کے ساتھ چین نے دنیا کے سامنے ثابت کیا ہے کہ وہ قابل اعتماد ملک ہے۔

حالیہ برسوں میں چین عالمی ترقی کا ایک اہم انجن رہا ہے اور اب اعلی معیار کی ترقی کے ذریعے تمام محاذوں پر چینی جدیدیت  کو آگے بڑھا رہا ہے۔چین نے صنعتی بنیاد، پیداواری عوامل اور جدت طرازی کی صلاحیت کے لحاظ سے مضبوط اور ٹھوس بنیادیں قائم کی ہیں اور  چین دنیا کی ترقی کے لئے مسلسل اور مضبوط تحریک فراہم کرے گا.”چینی مارکیٹ کا انتخاب کوئی خطرہ نہیں بلکہ ایک موقع ہے”،چینی وزیرِ اعظم کا یہ جملہ ایک دعوی بھی ہے اور ایک دعوت بھی۔ اس دعوے کے لیے اعتماد چین کی کارکردگی نے فراہم کیا ہے اور اسی کارکردگی نے دنیا کو چین آنے کی دعوت دی ہے۔  سال ۲۰۲۳ میں چین کی آٹوموبائل برآمدات پہلی بار دنیا میں پہلے نمبر پر رہیں۔چین کا مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا مجموعی حجم لگاتار 14 سالوں سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ چین کی مینوفیکچرنگ کل عالمی مینوفیکچرنگ کا 30.3 فیصد ہے، جو امریکہ اور جاپان، جرمنی اور جنوبی کوریا کے مساوی ہےاور  یہ چینی معیشت کی اصل طاقت ہے۔سال 2023 میں چین کے جی ڈی پی میں 5.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

  سوئس ایشین چیمبر آف کامرس کے چیئرمین ارس لوسٹن برگ  کا کہنا ہے کہ  کوئی بھی بڑی معیشت چین کی طرح اقتصادی ترقی کی شرح کو برقرار نہیں رکھ سکی۔  تمام بڑی معیشتوں کی  بلند ترین شرح نمو  عمومی طور پر تقریباً 3فی صد  تک ہی پہنچ سکی ہے۔ چین کی شرح نمو 5.2 فیصد رہی جو کہ متاثر کن ہے اور عالمی اقتصادی ترقی کا ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے علاوہ  چین کی اقتصادی ترقی کا معیار بھی بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔چین کی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کی اہم وجہ    صرف سستی مینوفیکچرنگ  ہی نہیں ، بلکہ چین کی سروس انڈسٹری، ڈیجیٹل اکانومی، ہائی ٹیک اور دیگر شعبوں میں گزشتہ برسوں کے دوران کی گئی سرمایہ کاری نے چینی معیشت کو اچھا منافع  دیا ہے ۔ چینی مارکیٹ بہت سی عالمی کمپنیوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے  اور ایک عالمی کمپنی اگر  چین پر توجہ نہ دے تو  وہ ترقی کے سب سے بڑے مواقعوں سے محروم ہوجائے گی ۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر بیرول نے ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے دوران  صاف توانائی کے شعبے میں چین کی کامیابیوں اور دنیا میں چین  کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صاف توانائی کی تیز رفتار ترقی بہت سے لوگوں کے تصور سے باہر ہے، جیسے قابل تجدید توانائی، برقی گاڑیاں، سبز ہائیڈروجن وغیرہ اور چین اس وقت ان تمام شعبوں میں چیمپیئن ہے۔  شمسی توانائی، ہوا سے حاصل  کی گئی توانائی، برقی گاڑیوں اور نئی جوہری توانائی جیسے کئی شعبوں میں چین  دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

یہ سب اشاریے اور مستند آرا اس اعتماد کا اظہار ہیں کہ دنیا  کے لیے، چین کے ساتھ تعاون نہ صرف تجارت کو فروغ دیتا ہے بلکہ ترقی کے نئے راستے کھولتا ہے  جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ شرکاء کو فائدہ پہنچانا ہےاس کی عملی مثال بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ہے جس کے ذریعے چین نے  سب کو فائدہ پہنچانے کے لیے  ترقی کا ایک ایسا طریقہ وضع کیا ہے جو عالمی معیشت میں نہ صرف ایک انوکھی مثال ہے بلکہ یہ دنیا کو چین کے ساتھ مل کر ایک زیادہ اعتماد کے ساتھ  درست سمت میں آگے بڑھنے کا یقین بھی دے رہا ہے۔

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link