بی آر آئی ایک دہائی کے کامیاب سفر سے اگلی دہائی کے سفر کو مزید کامیاب بنانے کے لیے تازہ دم ۔ | تحریر : سارا افضل، بیجنگ
عالمی سطح پر چین کے مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے عالمی معیشت میں ترقی کی نئی رفتار اور اس ترقی کے لیے وسیع گنجائش پیدا کی ہے۔ رواں سال اس انیشئیٹو کے ۱۰ سال مکمل ہوئے ہیں اور یہ دس سال اس انیشئیٹو سے وابستہ ممالک میں جنم لینے والی کامیابیوں کی کئی کہانیاں سناتے ہیں۔
ایک دہائی کے اس سفر میں چین نے بہت سے نئے تجربات ، مشاہدات اور پل پل بدلتی اس دنیا کے تقاضوں کے مطابق آنے والے دس برسوں کے لیے 24 نومبر کو “اعلی معیار کے بی آر آئی تعاون کا وژن اور اقدامات: اگلی دہائی کے لیے روشن امکانات” کے عنوان سے ایک دستاویز شائع کی جس میں اگلے 10 سالوں میں بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے اہم شعبوں اور اس کی سمت واضح کی گئی ہے۔ اس کے مطابق بی آر آئی کی ترقی کے لیے جاری کردہ نئے وژن اور ایکشن پلان کے ذریعے آئندہ دہائی میں اس کے شراکت دار ممالک کو مزید فوائد حاصل ہوں جس کے لیے سبز اور ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ ساتھ سپلائی چین کے استحکام پر نئے پہلووں سے توجہ دی جائے گی۔
چین کے جانب سے اس اقدام کو تجویز کیے جانے سے لے کر اس کے بین الاقوامی طور پر نافذ العمل ہونے تک ، بی آر آئی وسیع پیمانے پر قبول کردہ بین الاقوامی عوامی خدمات اور تعاون کے لیے بڑا اور اہم ترین پلیٹ فارم بن گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا ایکشن پلان مستقبل کی ترقی کے حوالے سے بے حد بر وقت ہے کیونکہ اب جب کہ بی آر آئی اگلی ‘سنہری دہائی’ کے لیے اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے تو اس منصوبے میں نئی صنعتیں اور عالمی خدشات کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران بی آر آئی نے پالیسی کوآرڈینیشن، بنیادی ڈھانچے کی کنیکٹیوٹی، بلا تعطل تجارت، مالیاتی انضمام اور ممالک کے عوام کے مابین روابط کے علاوہ نئے شعبوں میں تعاون میں اضافہ کیا ہے جن میں سبز ترقی، ڈیجیٹل تعاون کی نئی اقسام اور ماڈلز ، ٹیکنالوجی کی جدت طرازی اور صحت کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون شامل ہیں ۔نئے ایکشن پلان میں تجارت اور جدید ترین ٹیکنالوجیز بشمول انٹرنیٹ، انٹرنیٹ آف تھنگز، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اے آئی اور بلاک چین کے انضمام کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے
چین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ڈیجیٹل ترقی میں وسیع تجربہ رکھتا ہے اس کے علاوہ چین میں ڈیجیٹلائزڈ صنعتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اس لیے چین اور بی آر آئی پارٹنر ممالک کے درمیان ڈیجیٹل تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ چونکہ اب بی آر آئی کی اعلی معیار کی ترقی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، ایسے میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین اور بی آر آئی کے شراکت دار ،آرٹیفیشل انٹیلیجنس گورننس ، قواعد اور اے آئی ٹیکنالوجی کی تحقیق و ترقی پر تعاون اور تبادلوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں تاکہ ان ممالک کو انٹیلی جنٹ مینوفیکچرنگ اور ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں مدد مل سکے۔
صنعتی اور سپلائی چین کو زیادہ لچکدار بنانا اور آزاد تجارتی معاہدوں کا دائرہ کار بڑھانا بھی مستقبل میں بی آر آئی تعاون میں توجہ کا مرکز ہیں ۔تجزیہ کاروں اور کاروباری اداروں کا کہنا ہے کہ بی آر آئی کے تحت بین الاقوامی تعاون کو گہرا کرنے سے عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کے آپریشنز کو اہم تحریک ملے گی۔
چین پہلے بھی عالمی تجارت کی ترقی کے ساتھ ساتھ صنعتوں اور سپلائی چین کے استحکام میں بہت اہم کردار ادا کرتاآرہا ہے. خاص طور پر، حالیہ برسوں میں جب عالمی تجارتی تحفظ پسندی رائج رہی ہے تو چین ہمیشہ کھلے پن کے لیے پرعزم رہا ہے۔ اس انیشئیٹو کے تحت گزشتہ 10 سالوں میں چین اور بی آر آئی کے شراکت دار ممالک کی درآمدات اور برآمدات کا مجموعی حجم 19.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور دو طرفہ سرمایہ کاری 380 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
زراعت ، توانائی ، ڈیجیٹل معیشت اور دیگر شعبوں میں بی آر آئی تعاون کے منصوبوں کی ایک بڑی تعداد پر عمل درآمد کیا گیا ہے ، جس سے صنعتی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے اور مختلف ممالک میں صنعتی چینز کی بہتری کو تقویت ملی ہے۔مثلاً چین -یورپ ریلوے ایکسپریس کی مجموعی طور پر 79 ہزار 900 ریل گاڑیاں 25 یورپی ممالک میں 200 سے زیادہ شہروں تک پہنچ کر عالمی سپلائی چین کو مستحکم کرنے کے لیے “گولڈن چینل” بن گئی ہیں۔اکتوبر میں منعقد ہونے والے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون میں 458 ترسیلات پیش کی گئیں اور چینی مالیاتی اداروں نے بی آر آئی منصوبوں کے لیے 780 بلین یوآن (109 بلین ڈالر) کی فنانسنگ ونڈو قائم کی۔ یہ سب اقدامات اعلی معیار کے بی آر آئی تعاون میں مدد اور دنیا بھر میں رابطے ، ترقی اور خوشحالی کے لیے مضبوط رفتار فراہم کریں گے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت چین نے بی آر آئی تعاون کے تحت 152 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جن میں سے 83 فیصد ان ممالک کا احاطہ کرتے ہیں جن کے ساتھ چین نے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں ان کے علاوہ بی آر آئی کے باہمی فائدے اور سب کی جیت کے تصور کو مشرق وسطی کے سرمایہ کاروں کی طرف سے بہت سراہا گیا اور خلیج تعاون کونسل بی آر آئی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک رہی ہے۔
“مغربی سٹڈیز سمیت متعدد تازہ ترین سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ نام نہاد قرض کے جال کا جو پرا پیگنڈا کیا گیا تھا اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اس کے برعکس چین جو ہمیشہ عالمی ترقیاتی خسارے کو حل کرنے اور جامع ترقی کی خاطر مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم رہا ہے اس کے پیش کردہ بی آر آئی کے ذریعے سب کو فائدہ ہوا ہے اور یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ چین کا یہ اقدام مغربی دنیا کے عالمی تعاون سے خود کو الگ کرنے کے نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے۔
دنیا بھر کے ممالک اور لوگوں کو مثبت نتائج دے کر بی آر آئی بتدریج ایک “خیال” سے “حقیقت” کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب اس اعلیٰ معیار کے بی آر آئی وژن کے ذریعے چین دنیا کے لیے اپنی ذمہ داری اور شراکت کو اجاگر کررہا ہے ۔چین آئندہ دہائی کے لیے روشن امکانات کی خاطر مشترکہ کوششوں کے ذریعے بی آر آئی کے اعلی معیار، پائیداری اور عوام پر مبنی ترقی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بی آر آئی شراکت دار ممالک کو زیادہ سے زیادہ فوائد دینے کے لیے سرگرم ہے اور یہ دنیا کے تمام خطوں کے مابین جغرافیائی سیاسی توازن کو تبدیل کرے گا ۔ چین ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنے والی دہائی میں بی آر آئی کی اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تازہ دم اور پر عزم ہے۔