موسمِ خزاں، اُداس بُلبل اور میں۔ | تحریر: اقبال حسین اقبال،نگر
اتوار کی سحر ہے میری آنکھ کھلی سیر کو نکلا ۔ہلکی ہلکی ہوا سے پتے جھڑ رہے ہیں۔موسم بہار کو زوال شروع ہو گیا ہے۔خوبانی کے درخت پر ایک اداس بلبل سر پروں میں دبائے بیٹھا ہے۔میرے قدموں کی آہٹ سے وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔میں نے اداسی کی وجہ دریافت کی تو بتانے لگا کہ صاحب! یہ نومبر کا مہینا ہے۔ارضِ شمال میں سردیوں کی آمد آمد ہے۔ہوا میں عجیب سی خُنکی محسوس کر رہا ہوں۔دن مختصر اور راتیں لمبی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔موسم خزاں سبزے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔درختوں سے پتے جھڑنا شروع ہو گئے ہیں۔چمن یوں ویران ہے جیسے اسے کسی نے آگ لگا دیا ہو۔گلابوں کی رنگت زرد ہوتی جا رہی ہے۔طائر چمن کی خوش رنگ آوازیں کم کم سنائی دیتی ہیں۔پھولوں پر تتلیاں اڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔شاید انھوں نے بھی گرم علاقوں کا رخ کر لیا ہے۔خزاں ہمارے باغوں کو برباد کر رہا ہے۔میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اداس بلبل کی درد کو محسوس کرتے ہوئے کہنے لگا۔اے بلبلِ ناشاد تو اداس نہ ہو یہ رِیت بڑی پرانی ہے۔کیا تو نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یہ شعر نہیں سنا جس میں انھوں نے خزاں کی آمد کو کس انداز میں بیان کیا ہے۔
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا
اے اداس پرندے! آپ کی طرح اکثر شعرا کو بھی بہار کے موسم سے بے پناہ لگاؤ ہوتا ہے۔وہ اپنی شاعری میں محبوب کی خوب صورتی، دلکش اداوں، ناز و نخروں کو محبوب کی حسین اداؤں سے تشبیہ دیتے ہیں۔گلاب کے نرم و نازک پنکھڑی کو صنم کے لبوں سے ملاتے ہیں۔بہار کو خوش حالی، ترقی اور کامیابی سے جوڑتے ہیں جبکہ خزاں کو زوال، تنزلی، بربادی اور کسی قوم کی پستی کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔مگر تو اداس نہ ہو جہاں بہار کے موسم کی خوب صورتی ہے وہی خزاں کو بھی جداگانہ اہمیت حاصل ہے۔دراصل خزاں کا موسم دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بیان کرتے ہوئے انسان کو خبردار کرتا ہے کہ جس طرح بہار کے موسم کو زوال آتا ہے بالکل اسی طرح اے انسان! ہوشیار رہ، اپنی آخرت کی فکر کر کیونکہ بہت جلد خزاں کا موسم آپ کے وجود کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔کسی شاعر نے حُسن خزاں کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ بلاشبہ ہر ذی روح خالقِ کائنات کا پرستار بن جاتا ہے۔
بامِ جہاں میں آکے جمالِ خزاں کو دیکھ
رنگینئی بیاں میں کمالِ خزاں کو دیکھ
پتوں کے رنگ زرد، سرخ سبز ہو گئے
کیسا حسین سماں ہے نہالِ خزاں کو دیکھ
جانا ہے حیدر! تجھ کو جب اک دن سوئے بقا
زادِ سفر سمیٹ زوالِ خزاں کو دیکھ
(تخیل کی دنیا / نگاہِ شاہین)