اسلامی ممالک کا فلسطین کی آگ بجھانے کا آغاز کرنے  کے لیے چین پر اعتماد۔ | تحریر: سارا افضل، بیجنگ  

آج کی دنیا یکے بعد دیگرے  ایک سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر رہی ہے ۔ ایک آفت ٹلتی نہیں کہ دوسری دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔کبھی آسمان برستا ہے تو کبھی زمین ایسی کروٹ بدلتی ہے کہ ہنستے بستے شہر ملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں ، ستم ظریفی یہ کہ خود انسان کے اپنے پیدا کردہ مسائل نے ہی انسانوں کے لیے زمین کو تنگ کر دیا ہے  ۔ایسے میں دنیا بھی دو حصوں میں منقسم  ہے، ایک طرف وہ ہیں جو یا تو ان  بحرانوں اور تنازعات کی وجہ بن رہے ہیں یا پھر اس آگ  کو بھڑکانے میں  معاونت کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ  ہیں جو  موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور ماحول کے تحفظ سمیت تمام طرح کے جھگڑوں ، اختلافات اور تضادات کو بھلا کر  تسلط پسندی اور جارحیت کی سوچ کو ترک کرتے ہوئے  اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پر امن اور پرسکون دنیا تشکیل دینے کی ہر ممکن کو شش  کر رہے ہیں  اور دنیا کی تاریخ گواہ رہے گی کہ اس دوسرے  حصے میں چین ایک رہنما کا کردار ادا کر رہا تھا۔

ابھی روس-یوکرین تنازع کے منفی اثرات سے دنیا سنبھلی نہیں کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر تاریخ کی بد ترین جارحیت کا آغاز ہو گیا  اور بات صرف زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول تک نہیں رکی بلکہ اس میں تمام تر بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کی تمام تر قراردادوں کو پامال کیا گیا ۔ نہتے شہری تو جنگوں کا ایندھن بنتے ہی ہیں لیکن تب بھی ہسپتال ، اسکول نشانے پر نہیں لیے جاتے مگر یہاں تو نوزائیدہ بچوں کے ہسپتال ، معصوم بچوں کے مدارس ، پناہ گزین کیمپس رہائشی علاقے  کسی جگہ کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ یہ وہ ظلم تھا کہ جس پر دنیا بھر کے انسان چیخ اٹھے۔ لیکن افسوس کہ احتجاج ہوتے رہے اور فلسطین پر بارود کی بارش ہوتی رہی ، آگ برستی رہی اور اس آگ کو ایندھن فراہم کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک آنکھیں اور کان بند کر کے اسرائیل کی مدد کرتے رہے ۔

فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کو فلسطینیوں کا ہم مذہب ہونے کی ضرورت نہیں بس انسانیت کا درد اور احساس رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سعودی عرب نے غزہ میں اس دشمنی  کے خاتمے کے لیے امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی  اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس پیغام کو تقویت دینے کے لیے عرب اور مسلم رہنماؤں کو اکٹھا کیا ۔ اسلامی ممالک سمیت دیگر ممالک ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھانے لگے امداد فراہم کرنے لگے اور ان میں ایک توانا آواز چین کی رہی ۔ اقوم متحدہ ہو یا سلامتی کونسل برکس ہو یا ایپیک کا اجلاس پر جگہ چین نے فلسطین کے مسئلے کو پر امن طور پر حل کرنے اور مل کر مشرقِ وسطی میں بھڑکتی  آگ کو بجھانے کی دعوت دی۔ ماضی قریب میں چین نے برسوں پرانے  رقیبوں ، ایران اور سعودی عرب کو دوست بنایا تھا اسی کامیابی نے آج مسلم ممالک کو چین پر اعتماد کرتے ہوئے  چین کے ساتھ مل کر فلسطین کا مسئلہ حل کرنے پر مائل کیا ۔ چین نے بخوشی اس معاملے میں عملی کردار ادا کرنے کی حامی بھرتے ہوئے اس اہم ترین ملاقات کی میزبانی کی ۔ 

انیس نومبر کو  چین کے وزیر خارجہ اور عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔  اس ملاقات کو  غزہ میں اسرائیلی جارحیت رکوانے اور علاقے میں انسانی امداد کی بحالی کے لیے دوروں کا پہلا قدم قرار دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ہم یہاں ایک واضح پیغام بھیجنے آئے ہیں کہ ہمیں فوری طور پر لڑائی اور ہلاکتوں کو روکنا ہوگا، ہمیں فوری طور پر غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر  امداد  فراہم کرنی ہوگی۔ شہزادہ فیصل کا کہنا تھا کہ ہم چین سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کے خواہاں ہیں جو جنگ کے خاتمے کے لیے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہیں۔انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ  ذمہ داری اٹھائے  اور غزہ میں جاری  جنگ کے خاتمے اور معصوم زندگیاں بچانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو بڑھایا جائے ۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ  بیجنگ عرب اور مسلم ممالک کا اچھا دوست اور بھائی ہے اور اس نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق اور مفادات کی بحالی کے منصفانہ مقصد کی بھرپور حمایت کی ہے ۔جنگ کے آغاز کے بعد سے چین کی وزارت خارجہ بارہا کشیدگی میں کمی اور اسرائیل اور فلسطین پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ ایک آزاد فلسطین کے لیے ‘دو ریاستی حل’ تلاش کریں۔ بیجنگ نے غیر مغربی قیادت والے کثیر الجہتی گروپوں جیسے برکس بلاک آف نیشنز کے ساتھ اتحاد کو گہرا کیا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور عالمی جنوب کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا ہے اور  بیجنگ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی میں مدد کے لیے  تیار ہے۔انہوں نے بھی بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ  وہ غزہ میں ہونے والی “انسانی تباہی” اور  اس سانحے کو پھیلنے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں ہولناک تباہی ہوئی ہے، انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ یہ جنگ صرف مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرسکتی ہے۔غزہ کی صورتحال  انسانیت کا  احساس  کرنے والے ، حق و باطل کو سمجھنے والے اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی پر آواز اٹھانے والے  دنیا بھر کے تمام ممالک کو متاثر کرتی ہے، چین غزہ میں لڑائی کو جلد از جلد ختم کرنے، انسانی بحران کو کم کرنے اور فلسطین کے مسئلے کے جلد، جامع، منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا۔

مشرق وسطیٰ کے لیے چین کے خصوصی ایلچی ژائی جون نے گذشتہ سال اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ عرب لیگ اور یورپی یونین کے حکام سے بھی رابطہ کیا تھا تاکہ اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل اور فلسطین کو تسلیم کرنے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔مصر کے وزیر خارجہ سمیع شوکری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ایسے بڑے ممالک بھی ہیں جو اسرائیلی حملوں کو تحفظ فراہم  کرتے ہیں،  ہم غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف حملوں کو روکنے کے لیے چین جیسی بڑی طاقت کی جانب سے مضبوط اور موثر کردار کے منتظر ہیں۔

رواں ماہ او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی کے غیر معمولی اجلاس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت روکنے کے لیے غزہ میں تیز رفتار، محفوظ اور غیر محدود امدادی سامان کی فراہمی کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداریوں کی  قیام اور فلسطین کی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خودمختار ریاست کے جلد قیام پر زور دیا گیا ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ حالیہ تصادم کی بنیادی وجہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد نہ ہونا ہے،1967کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل سے لڑائی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہے۔اس اجلاس کے اعلامیے  میں  اسرائیلی مظالم کو روکنے میں ناکامی پر سلامتی کونسل سے مذمت کی گئی، فلسطین کے خلاف جارحیت کی حمایت کرنے والوں اور اسرائیل کو استثنا دینے کے دہرے معیار کی بھی مذمت کی گئی اور مغرب پر زور دیا  گیا کہ وہ اسرائیل کے اس مؤقف کو مسترد کرے کہ وہ غزہ میں اپنے حق دفاع میں حملے کررہا ہے۔

مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ اور او آئی سی کے حکام پر مشتمل وفد  نے چین سے اپنے دور ے کا جو آغاز کیا ہے وہ چین کے مثبت اور تعمیری کردار پر اعتماد کا اظہار ہے ۔یہاں سے اٹھنے والی توانا آواز ان کی ہم نوا   ہوئی ہے اور  چین کی مضبوط حمایت  فلسطین  میں جنگ بندی اور اس مسئلے کے پر امن حل کی کوششوں کے لیے سفر کے آغاز کو  بے حد حوصلہ دے رہی ہے ۔ یہ دورہ  اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مشرقِ وسطی کے ممالک اب مزید کسی دھوکے میں نہیں رہنا چاہتے  وہ چین جیسے مخلص اور کھرے دوست کا ساتھ چاہتے ہیں جو  طاقتور  ہے مگر تسلط پسند نہیں ، جو صرف باتیں نہیں عملی طور پر  خوشحالی اور امن قائم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے  اور اس سلسلے میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے روشن مثالیں بھی قائم کر رہا ہے۔

Sara
سارہ افضل، بیجنگ

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link