چین کا فلسطین اسرائیل تنازع پر منصفانہ موقف۔ | تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ابھی حال ہی میں برکس ممالک کے رہنماوں نے فلسطین اسرائیل مسئلے پر ایک غیر معمولی ورچوئل سربراہ اجلاس کا انعقاد کیا ۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسا نے اجلاس کی صدارت کی، جس میں چین، برازیل، روس، سعودی عرب، مصر، ایران، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا کے رہنماؤں اور بھارت اور ارجنٹائن کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔شرکاء نے فلسطین اسرائیل صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور شہریوں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق شہریوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فوری طور پر دیرپا، پائیدار  عارضی جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔شرکاء نے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بحران کے پرامن حل کے لئے تمام سازگار کوششوں کی حمایت کی۔ رہنماؤں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی حمایت کرے اور دو ریاستی حل کے حصول اور فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام کو فروغ دے جسے مکمل خودمختاری حاصل ہو۔

 اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے پائیدار امن و سلامتی کے حصول کے لیے پہلے قدم کے طور پر فوری جنگ بندی پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ تنازع کے فریقین کو دشمنی ختم کرنی چاہیے اور فوری طور پر جنگ بندی کا ہدف حاصل کرنا چاہیے۔شی جن پھنگ نے فریقین پر زور دیا کہ وہ شہریوں کے خلاف تمام تشدد اور حملے بند کریں، یرغمال بنائے گئے شہریوں کو رہا کریں اور مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے اور لوگوں کو مزید مصائب سے بچانے کے لیے اقدامات کریں۔چینی صدر نے یہ بھی کہا کہ انسانی راہداریوں کو محفوظ اور بلا روک ٹوک رکھا جائے اور غزہ کی آبادی کو مزید انسانی امداد فراہم کی جانی چاہیے۔

شی جن پھنگ نے اس موقع پر بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ اس تنازعے کو پھیلنے اور مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ میں استحکام کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لئے عملی اقدامات کرے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین اسرائیل تنازع کی اس گردش کو توڑنے کا واحد قابل عمل راستہ دو ریاستی حل، فلسطین کے جائز قومی حقوق کی بحالی اور فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔

شی جن پھنگ نے کہا کہ چین ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے جلد انعقاد کا مطالبہ کرتا ہے جو امن کے لئے بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے اور مسئلہ فلسطین کے جلد حل کے لئے زیادہ مستند ،  جامع ، منصفانہ اور پائیدار عملی اقدامات اٹھا سکے۔ چینی صدر نے یہ بھی کہا کہ برکس کی توسیع کے بعد یہ پہلا سربراہی اجلاس ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بروقت اور بہت اہم ہے کہ تمام رکن ممالک فلسطین اسرائیل مسئلے پر انصاف اور امن کے لئے مل بیٹھیں اور بات چیت کریں۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری تنازع اپنے دوسرے مہینے میں داخل ہو رہا ہے۔ چین کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ یہ تنازع بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں اور انسانی تباہی کا سبب بن رہا ہے اور اس میں توسیع اور پھیلاؤ کا رجحان ہے۔

چینی صدر نے کہا کہ غزہ میں لوگوں کو جبری منتقلی یا پانی، بجلی اور ایندھن کی قلت کی صورت میں “اجتماعی سزا” بند کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ تمام فریقین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔شی جن پھنگ نے کہا کہ فلسطین اسرائیل صورتحال کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت، ان کے وجود کے حق اور ان کی واپسی کے حق کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن و سلامتی ممکن نہیں ہے۔ حالیہ تنازع کے آغاز کے بعد سے چین امن مذاکرات اور جنگ بندی کو فروغ دینے کے لیے سرگرمی سے کام کر رہا ہے۔ چین نے غزہ میں انسانی ہمدردی پر مبنی امداد فراہم کی ہے اور غزہ میں لوگوں کی ضروریات کے مطابق مزید رسد اور امداد فراہم کرے گا۔برکس تعاون کے طریقہ کار کو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے لئے یکجہتی اور تعاون کو مضبوط بنانے اور مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر سراہتے ہوئے شی جن پھںگ نے کہا کہ فلسطین اسرائیل تنازع پر موقف اور اقدامات کو مربوط کرنے کے لئے یہ اجلاس وسیع تر برکس تعاون کے لئے ایک اچھا آغاز ہے۔ چین برکس تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لئے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔

وسیع تناظر میں یہ سربراہی اجلاس برکس ممالک کی ذمہ داری کے احساس، بین الاقوامی امن و استحکام کے لئے ان کے مطالبے اور بہت سے اہم امور پر ان کے اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے۔چین کا اس مسئلے پر موقف مستقل، منصفانہ، شفاف اور بے لوث ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ چین حقیقی معنوں میں علاقائی امن اور ترقی کے لئے کام کر رہا ہے۔

SAK
شاہد افراز خان، بیجنگ

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link