ہماری فلم انڈسٹری تنزلی کا شکار کیوں۔ | تحریر: ارشد قریشی

دنیا میں فلم سازی اور فلم بینی کی تاریخ ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے   لیکن افسوس کہ  پاکستان کی فلم انڈسٹری  وہ کمال حاصل  نہ کر سکی جو دنیا کی بہت سی فلم انڈسٹری  حاصل کرچکی ہیں ، ہمارے ہاں بننے والی چند  ایک فلمیں ہی عوام کا دل جیت پاتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جب بھی فلموں کا ذکر  ہو تو ان کی ذکر لازم ہوتا ہے ان میں بھی زیادہ تر پرانی فلمیں ہی ہیں ۔

اس سے اس بات کا با خوبی  اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  ماضی میں بنائی گئی فلموں نے لالی وڈ کو ایک وقت میں جہاں ترقی دی وہیں آج کل بننے والی پاکستانی  فلمیں فلم انڈسٹری کی ترقی میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرسکیں اور نہ ہی  روٹھے ہوئے فلم بینوں کا  دل جیتنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔

ہمارے ہاں نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر  پیش کیے جانے والے ڈرامے سرحد پار بھی مقبول ہیں اور شائقین  بہت شوق سے دیکھتے ہیں  اس کی اہم وجہہ یہ ہے کہ زیادہ تر ڈرامے سماج میں  رونما ہونے والے واقعات پر مبنی  ہوتے ہیں  دیکھنے والوں کو کبھی اپنے گھر تو کبھی اپنے ارد گرد کے ماحول کی عکس بندی ہوتے محسوس ہوتی ہے ، ڈارموں  کی طرح فلم بھی محض تفریح کا ذریعہ  نہیں ہوتیں  بلکہ  ایک طرف اس کے ذریعے نظریات و افکار کی تشہیر و ترویج  ہوتی ہے   تو ساتھ ہی معاشرے میں  سدھار  لانے کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں  ۔ دوسری طرف  لوگوں کو  اپنی تاریخ  ، تہذیب و  ثقافت کے مختلف حوالوں سے متعلق آگاہی دینے اور ان سے وابستہ کرنے کے لیے  بھی فلم اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگر آپ چند لمحوں کے لیے اُس دور کے بارے میں سوچیں جب صرف پاکستان کا سرکاری ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اس وقت بہت سے تاریخی ڈرامے نشر ہوئے جن میں   سر فہرست نسیم حجازی کے ناول آخری چٹان پر بننے والا ڈرامہ تھا ۔ اس تاریخی ڈارمے کو دیکھ کر جو معلومات   ہمیشہ ہمیشہ لے لیے ذہن میں نقش ہوگئیں وہ  کسی بھی کتاب  کو  پڑھنے یا تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے مضامین  یاد کرنے سے کہیں   زیادہ تھیں  ۔

اسی طرح اگر ہم بات کریں دوسرے کئی ممالک کی تو ان کی  فلم انڈسٹری  نے بھی  ایسی  کئی  فلمیں بنا کر اپنی  تاریخ اور سیاسی جدوجہد کو عوامی سطح پر دکھایا ہے۔  یہاں ایسی فلموں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے  کہ ہماری فلم انڈسٹری اس طرح کی فلمیں بنانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی جب کہ ہماری سرزمین تاریخی   فلم کو فلمانے کے لیے بہت موزوں ہے ۔  پڑوسی ملک بھارت اس طرح کی فلمیں بنانے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے  ان کی فلم انڈسٹری نے سیاسی و سماجی شخصیات اور اپنے ہیروز پر بے شمار فلمیں بنا ڈالیں  گاندھی سے لے کر  موجودہ وزیرِ اعظم مودی تک کی شخصیات پر فلمیں بنا ئیں  ۔ آخر ہماری فلم انڈسٹری کو ایسے موضوع پرفلم بنانے کا خیال کیوں نہ آیا  ، کیا پاکستان  میں کوئی ایسی سیاسی ، سماجی   یا مشہور شخصیت نہیں جس  پر بڑے  پیمانے  کی کوئی فلم بنائی جاسکے ،  افسوس کہ بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی جو فلم بنائی گئی وہ بھی دوسرے ملک کی فلم انڈسٹری نے بنائی   جب کہ قائد کی تاریخی  اور ناقابل فراموش جدو جہد  پر ہمیں  سب سے پہلے فلم بنانے کی ضرورت تھی۔   شہیدِ ملت لیاقت علی خان ، مادرِ ملت محترمہ  فاطمہ جناح کی زندگی سے لے کر ملک کے  پہلے منتخب وزیرِ اعظم    ذوالفقار علی بھٹو پر بھی آج تک کسی نے فلم بنانے کا نہیں سوچا ۔  شہید محترمہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تھیں  اس بات کو بھی فلم انڈسٹری نے کوئی اہمیت نہیں دی ۔  سابقہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی دور میں پاکستان دنیا بھر کے نقشے پر ایٹمی طاقت بن کر ابھرا تھا مگر اسے بھی نظر انداز کیا گیا، عمران خان کے کرکٹ کے کامیاب سفر سے  سیاست کے  سفر اور وزیراعظم بننے تک کی جدوجہد پر بھی بہترین فلم بنائی جا سکتی ہے مگر کسی نے آج تک اس بارے نہیں سوچا،   ڈاکٹر رتھ فاو اور مولانا  عبدالستار  ایدھی کی سماجی خدمات  کے سفر  اور ان کے حالاتِ  زندگی پر بھی ایک بے مثال فلم بنائی  جاسکتی ہے لیکن   اس جانب بھی کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئی ۔فخرِ پاکستان داکٹر عبدالقدیر خان کا ملک کو ناقابلَ تسخیر بنا دینے سے لے کر ان کی موت تک پر ایک بہترین فلم بنائی  جاسکتی ہے  اس طرح کی فلم بنانے میں کوئی تفریق نہ رکھی جانا بھی ضروری ہے جس شخصیت پر بھی فلم بنائی جائے حقیقت پر مبنی ہو  چاہے اچھی شخصیت ہو چاہے بری لیکن عوام کے سامنے اسے ایمانداری سے پیش کیا جانا چاہیے۔

پڑوسی ملک  بھارت نے کئی متنازع  فلمیں بھی بنائی ہیں جس میں  پاکستان یا پاکستان کی کسی شخصیت ے کردار کو اس کی شخصیت کے برعکس دکھایا گیا ہے  ،  نوجوان ایسے ہی یک طرفہ موقف دیکھ کر تاریخ سیکھ رہے ہیں کیوں کہ ہم نے آج تک تاریخ کے حقیقی  پہلوؤں سے  نوجوانوں کو  آگاہ  ہی نہیں کیا  اور نا ہی جدید تیکنالوجی کے استعمال سے  ان تک  پہنچانے کی زحمت کی ،   اس سے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہوگا کہ شاید ہمارے ہاں کوئی اس لائک  گزرا  ہی نہیں یا اسے اس لائک سمجھا ہی نہیں گیا کہ جس کی شخصیت پر  فلم بنائی جا سکے۔

اگر ہمیں یہ خوف ہے کہ ایسی فلم بناتے ہوئی دورانِ ریسرچ ہمیں خود اپنے  اُن مضامین اور نصاب کی نفی کرنی ہوگی جو ہم ماضی میں پڑھا چکے  تو کوئی بات نہیں  تاریخ درست ہونے دیں  اس سے کم از کم     آنے والی نسلوں  کی تو اصلاح ہوجائے گی  اوریہ کوئی معیوب بات بھی  نہیں  دنیا کے  بڑے سائنسدان بھی  مزید تحقیق کے بعد اپنی کئی تحقیق سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ جو زمین گول بتائی گئی اب وہ بیضوی بتائی جاتی ہے۔ ہمت کریں  اپنی تاریخ، ثقافت و سیاست کو  سچائی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کریں ممکن ہے اس طرح سے ان ہی شعبوں میں بہتری  آنا شروع ہوجائے اور ہماری فلم انڈسٹری بھی دوسرے ممالک کی انڈسٹری کے  ساتھ صفِ اول میں کھڑی ہوجائے۔  

AQ
ارشد قریشی

ارشد قریشی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link