سڑک کی تعمیر خوشحالی کی طرف پہلا قدم ہے،کی چینی حکمتِ عملی   کے تحت آگے بڑھتا بی آر آئی۔ || تحریر : سارا افضل، بیجنگ

انسانی جسم میں دل اور شریانوں کے نظام اور ان کی اہمیت س کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ دل چاہے جتنا دھڑکے ، شریانوں کی بندش ، کمزوری یا معمولی سی خرابی  پورے جسم کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے  ۔کسی بھی  ملک یا خطے کی ترقی میں شاہراہیں اور سڑکیں  ، وہ  شریانیں ہیں جن کے ذریعے معیشت  کی صحت بحال ہوتی ہے ۔ پیداواری علاقوں  کو بازاروں سے جوڑ کر، مزدوروں کو قریبی علاقوں کے کارخانوں ، فیکٹریوں یا تعمیراتی علاقوں تک لے جا کر ، کم وقت میں دور دراز کے تعلیمی اداروں تک  نوجوانوں  کے لیے سفر کو سہل  کرنے اور بیماروں کی اسپتالوں تک فوری رسائی کو آسان بنا کر   رابطے آسان ، یقینی اور مضبوط بنانے والی  یہ سڑکیں کسی بھی ملک کی ترقیاتی حکمتِ عملی کی اساس  ہوتی ہیں۔

  چین میں کہا جاتا ہے  کہ  “اگر آپ امیر بننا چاہتے ہیں تو پہلے ایک سڑک بنائیں” یا یہ  کہ “سڑک کی تعمیر خوشحالی کی طرف پہلا قدم ہے “. چین کی ترقیاتی حکمتِ عملی اور روڈ میپ کو دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ  چینی پالیسی سازوں نے اپنی حکمتِ عملی کی بنیاد میں اس “تصور” کو شامل کیا ہے ۔2022 میں چائنا ہائی ویز  اینڈ ایکسپریس ویز کی لمبائی  ایک لاکھ 77 ہزار 300 سو  کلومیٹر  ہو چکی تھی جس سے یہ  دنیا میں سب سے طویل ترین نیٹ ورک بن چکا  ہے۔ چین  اپنے ہائی وے سسٹم میں مسلسل  سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنی بڑی علاقائی حکمت عملیوں کو آسان بنانے کے لیے سڑکوں  کی تعمیر کر رہا ہے  ۔ اس کے ساتھ ساتھ  بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ایک  حصے کے طور پر  ہائی وے نیٹ ورک کو بین الاقوامی لاجسٹک کوریڈور سے جوڑتے ہوئے  بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مسلسل پیش رفت کر رہا ہے  اور دنیا کے مشکل ترین علاقوں میں میگا پراجیکٹس کی تعمیر سے ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے اس شعبے میں اپنی تکنیکی مہارت کی دھاک بٹھا رہا ہے ۔

 چین کے اندر اس شعبے میں تعمیراتی کمالات تخلیق کیے گئے ہیں۔   بلند ترین اور انتہائی کم درجہ حرارت پر ریلوے اور تیز رفتار اور بھاری فاصلے پر ریلوے کے لئے ٹیکنالوجی میں چین دنیا میں سب سے آگے ہے۔ اس نے مستقل منجمد سطح مرتفع    اور ریتلے  متحرک صحرا  جیسے چیلنجنگ علاقوں میں  ہائی وے کی تعمیر کو درپیش سب سے مشکل تکنیکی مسائل کو حل کیا ہے۔ یہ گہرے پانی کی آف شور بندرگاہوں کی تعمیر، بڑے پیمانے پر دریاؤں اور طویل آبی گزرگاہوں کو بہتر بنانے اور بڑے ہوائی اڈوں کی تعمیر کے لیے بنیادی ٹیکنالوجیز میں بھی پیش پیش ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے  چین اپنے انہی تجربات اور تکنیکی مہارت کے ساتھ  ، بی آر آئی کےشراکت دار  ممالک کو  عملی  فوائد فراہم کر رہا ہے۔

 تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون  کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے کثیر الجہت بیلٹ اینڈ روڈ کنکٹیویٹی نیٹ ورک  کی تعمیر  کا اقدام پیش کیا  جس کے تحت  چین نقل و حمل کی  ٹرانس کیسپین بین الاقوامی راہداری کی تعمیر میں حصہ لے گااور ریلوے اور شاہراہوں  سے براہ راست منسلک یوریشین براعظم میں ایک نئے لاجسٹک کوریڈور پر تعاون کرے گا. چینی صدر نے یہ بھی کہا کہ چین ” میری ٹائم سلک روڈ ” کے تحت بندرگاہوں، شپنگ اور تجارتی خدمات کو بھرپور طریقے سے ضم کرے گا اور نئی بین الاقوامی بری و سمندری تجارتی راہداری اور ایئر سلک روڈ کی تعمیر میں تیزی لائے گا۔

“سڑک کی تعمیر خوشحالی کی طرف پہلا قدم ہے “کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے   چین نے بی آر آئی کے تحت  چین-لاؤس ریلوے، جکارتہ-بانڈونگ ہائی اسپیڈ ریلوے اور مومباسا-نیروبی اسٹینڈرڈ گیج ریلوے جیسے اہم منصوبے مکمل   کیے ہیں ۔ تعاون کے ان منصوبوں نے بی آر آئی ممالک کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو بہتر بنانے، رابطے کو فروغ دینے، لوگوں کی فلاح و بہبود  اور ترقیاتی صلاحیت کو  بہتر اور مضبوط بنانے میں مدد فراہم  کی ہے. مثال کے طور پر لاوس جس کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے، جس کے  لینڈ لاک ہونے کی وجہ سے  محدود زمینی ذرائع نقل و حمل  اس کے دنیا کے ساتھ تجارتی روابط میں رکاوٹ تھے اور  جو  تھائی لینڈ تک صرف 3.5 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کے ساتھ  جڑا تھا ، یہاں پر 1,035 کلومیٹر طویل چائنا-لاؤس  ریلوے ایک گیم چینجر ثابت ہوئی ہے ۔دسمبر 2021 میں اپنے آغاز کے بعد سے ، اس سال ستمبر کے آغاز تک 20.9 ملین سے زیادہ مسافر اس کے ذریعے سفر کر چکے ہیں  اور 25.36 ملین ٹن کارگو کی نقل و حمل کی گئی  ہے۔ آج اسی لاوس کے ساتھ چین  کے 25 صوبائی علاقوں نے سرحد پار مال بردار ٹرین سروس کا آغاز کیا ہے ، جو لاؤس ، تھائی لینڈ ، میانمار ، ملائیشیا ، کمبوڈیا اور سنگاپور کو اجناس کی منتقلی کی سہولت فراہم کرتی ہے ۔ان منصوبوں سے نہ صرف ان لینڈ لاک  ممالک کا دوسرے خطوں کے ساتھ زمینی رابطہ مسلسل بہتر ہو رہا ہے بلکہ بی آر آئی تعاون نے انہیں بندرگاہوں تک پہنچنے میں بھی مدد کی ہے۔

اس کے علاوہ2014 میں بی آر آئی  کے تحت شروع کیا گیا پہلا منصوبہ ، چین-قازقستان لیان یونگانگ لاجسٹکس تعاون بیس ، چین میں قازقستان کی اناج کی ٹرانزٹ کے لیے واحد ڈیپارچر پورٹ کے طور پر کام کررہا ہے اور وسط ایشیا کے لینڈ لاک  ممالک کے لیے ایک اہم ڈرائی پورٹ  کے طور پر فعال ہے۔ لیان یونگانگ سے قازقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی  تک سامان پہنچانے میں  20 دن سے زیادہ کا وقت لگتا تھا، لیکن اب چین یورپ مال بردار ٹرینوں کی بہتر آپریٹنگ کارکردگی کے باعث یہ وقت صرف ایک ہفتےتک سمٹ گیا ہے۔

لینڈ لاک ممالک کے لیے علاقائی روابط  کو فروغ دینے کے علاوہ ، دستخط شدہ بی آر آئی منصوبوں کے بھی مثبت  نتائج و اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔تاریخی بی آر آئی منصوبہ جکارتہ-بانڈونگ ہائی اسپیڈ ریلوے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ اور مشہور سیاحتی شہر بانڈونگ کے درمیان ٹرین کے سفر کو کم کرتا ہے۔ اس نئی 142.3 کلومیٹر لائن نے سفر کے اوقات کو تین گھنٹے سے کم کرکے تقریبا 40 منٹ کردیا ہے اور ریلوے کے ساتھ روزگار کے کئی ہزار مواقع فراہم کیے ہیں ۔اعداد و شمار کے مطابق ، 45،000 انڈونیشی ملازمین کو تیز رفتار ریلوے کی تعمیر کے دوران اداروں اور ان کے چینی ماہرین کے ذریعے سائٹ پر تربیت دی گئی اور اس منصوبے نے انڈونیشیا میں تقریبا 51،000 ملازمتیں پیدا کی ہیں۔چائنا-لاؤس ریلوے کا لاؤس سیکشن بھی کامیابی کی ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ اس نے لاجسٹکس ، نقل و حمل  اور  تجارت کے ساتھ ساتھ سیاحت جیسے شعبوں میں 100،000 سے زیادہ ملازمتوں کا اضافہ کیا ہے۔

بی آر آئی منصوبے بین الاقوامی سپلائی چین کو مستحکم کرنے میں بھی مددگار ہیں۔چین یورپ مال بردار ریل گاڑیوں  نے ایشیا اور یورپ میں بین الاقوامی نقل و حمل کے راستوں کو نئی شکل دی ہے۔ ستمبر کے آخر تک ،  25 یورپی ممالک کے 217 شہروں کے لیے ریل گاڑیوں کے تقریبا 78،000 ٹرپس ہوئے تھے۔

تیسرے بی آر آئی فورم میں  چینی صدر  نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا ہے کہ عالمی رابطوں کو مزید فروغ دینے کے لیے چین وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے اصولوں کے تحت اعلیٰ معیار کے تاریخی بی آر آئی منصوبوں کے قیام کے لیے متعدد اقدامات کرے گا۔اس سلسلے میں چین ،  چین-یورپ مال گاڑیوں  کی آپریشنل کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جائے  گا اور نیو انٹرنیشنل لینڈ سی ٹریڈ کوریڈور کی تعمیر  کو تیز کیا جائے گا۔اس کے علاوہ گرین انفراسٹرکچر، گرین انرجی اور گرین ٹرانسپورٹیشن جیسے شعبوں میں تعاون کو  مزید وسیع اور مضبوط کرنا بی آر آئی کے تحت گرین ڈیویلپمنٹ کو فروغ دینے کے لیے چین کے نئے اقدامات  کی ترجیح ہے۔اگلے مرحلے میں ، چین بی آر آئی ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل شعبے میں اقتصادی اور تجارتی تعاون کو بہتر بنانے کے لئے سلک روڈ ای کامرس تعاون کو محور کے طور پر لے گا۔2022 کے آخر تک چین نے 17 ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل سلک روڈ کی تعمیر اور 30 ممالک کے ساتھ ای کامرس تعاون پر مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔

تیسرے بی آر آئی بین الاقوامی تعاون فورم میں چین نے کثیر الجہت بیلٹ اینڈ روڈ رابطے کے نیٹ ورک کی تعمیر کا عہد کیا ہے   اور  اس حوالے سے مستقبل میں ریلوے ، بندرگاہیں اور راہداریاں تعاون کا ایک نمایاں حصہ رہیں گی، بین الاقوامی نقل و حمل کے راستوں کو نئی شکل دینا   خوشحالی  کا باعث بنے گا اور  بنیادی ڈھانچے کی کنیکٹیوٹی دنیا کو تبدیل کرے گی۔

Sara
سارہ افضل، بیجنگ

سارا افضل کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link