ڈاکٹر نسترن فتیحی: نئے دور کی افسانہ نگار۔ || تحریر: کرن عباس کرن
کہتے ہیں کہ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ایک اچھا ادیب زمان و مکان کی قید سے آزاد تمام نسلِ انسانی کا نمائندہ ٹھہرتا ہے۔ اس کے الفاظ سرحدوں کی قید سے آزاد، اس کا قلم بلا تفریق ہر انسان کی صدا، اور اس کی سوچ ہر دل کی آواز ٹھہرتی ہے۔
ڈاکٹر نسترن فتیحی کی کتاب ’’بین کرتی آوازیں‘‘ ہاتھ میں لیتے ہی کتاب ہی عمدہ طباعت کی داد دیے بنا نہ رہ سکی، وہیں نام نے اپنی طرف۔ بھرپور توجہ مبذول کروائی۔ جیسے جیسے کتاب کے صفحات آگے بڑھتے چلے گے وہیں کتاب اپنے سحر میں جکڑتی چلی گئی۔
’’بین کرتی آوازیں‘‘ میں موجود افسانے، محض افسانے نہیں بلکہ اپنے نام کی نسبت موجودہ دور کی تلخیوں کا بین، نظام کا ماتم، نئے وقت کا نوحہ ہیں۔ موجودہ دور کو مشینی دور کہا جاتا ہے، یہ مشینی یا روبوٹ کا دور محض سائنسی ایجادات تک محدود نہیں بلکہ ہمارے رویوں، چال چلن، نفسیات میں اس کی چھاپ لگ چکی ہے۔ ہماری سوچ ایک انسان کے بجائے روبوٹ کی طرح سوچتی، پرکھتی ہے۔ ہمارے سینے میں دل ہونے کے باوجود ہمارے احساسات مشین کی طرح سرد ہیں۔ ہمارے ہاتھ پیر، دماغ تیز رفتاری سے وقت کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، مکمل مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اس دوڑ نے ہمارے دل کی رفتار اس قدر سست کر دی ہے کہ ہم میں اور ایک روبوٹ میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ یہی بنیادی تھیم ’’بین کرتی آوازوں‘‘ کے بیشتر افسانوں کا مرکزی نکتہ ہے۔
نسترن صاحبہ نے جدید ایجادات کے نئے پہلو سے پردہ اٹھایا ہے، جسے ہم سب ہی فراموش کیے ہوئے ہیں۔ ایجادات، جو ہمارے سامنے فاصلے مٹانے کا باعث بن رہی تھیں وہی فاصلے بڑھانے کا سبب بن چکی ہیں۔ ان فاصلوں میں ایک طویل فاصلہ دو نسلوں کے درمیان در آیا ہے جسے ہم ’’جنریشن گیپ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دوسرا نکتہ نظر ہے جو نسترن صاحبہ کے افسانوں میں قاری کو جا بجا نظر آتا ہے۔ ’جنریشن گیپ‘ کی بنیادی وجہ مصنفہ ’کمیونیکیشن گیپ‘ کو قرار دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ ایک چھت کے نیچے رہنے والوں میں بھی بات چیت کا شدید فقدان ہے۔ اسی کمیونیکیشن گیپ نے دو نسلوں کے درمیان ایسی دیوار اٹھائی ہے دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے، وقت دینے سے عاری ہیں۔ ’’انگلی کی پور پر گھومتا چاند‘‘ اور ’’پرچھائیں‘‘ اس کا بہترین اظہار ہیں۔
موجودہ تیز رفتار دور کی چکی میں جہاں ہر انسان برابر پس رہا ہے وہیں خواتین پر اس کا بوجھ کچھ زیادہ پڑا ہے۔ اب خواتین کو جہاں باہر کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے وہیں اس کی گھریلو ذمہ داریوں نے اس بوجھ کو دوچند کر دیا ہے۔ نتیجتاً خواتین بھی ’مشینی دور‘ میں مشین بن کر رہ چکی ہیں۔ مصنفہ اپنے افسانوں ۔میں نئے دور کی خواتین کی بھرپور ترجمانی کرتے دکھائی دیتی ہیں۔
وقت کی تیز رفتاری نے مادیت پرستی کو فروغ دیتے ہوئے اخلاقی اقدار مثلاً ایمان داری، سچائی وغیرہ کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ وقت کے قدم بقدم چلنے کے شوق میں انسان محض فائدے کو دیکھتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس فائدے کے لیے اسے کتنی اچھائیوں سے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے، کتنے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اگر وہ دستبردار نہ ہونا چاہے تو زمانے سے کٹ جاتا ہے۔ افسانہ ’ڈائل ٹون‘ اس کی بہترین مثال ہے۔
مصنفہ کا قلم جہاں نئے دور کے حالات و مشکلات کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے، وہ جہاں انسانی روح اور ذہن کو تیز رفتار وقت کے عطا کردہ بوجھ پر ماتم کناں نظر آتی ہیں، وہیں ان کا قلم معاشرے، نظام اور ظلم و استبداد پر تیر کی طرح برستا دکھائی دیتا ہے۔ وہ حق کی علم بردار بنتے ہوئے، تاریک چاردیواریوں میں ’بین کرتی آوازوں‘ کی آواز بنتی نظر آتیں ہیں۔ ایک بے باک اور کھرے قلمکار کے طور پر ’سادہ اوراق‘، ’ووٹ کا ویٹ‘، ’ہٹلر‘ میں سماج اور سیاست کی اخلاقی تنزلی پر نشتر زنی کرتے دکھائی دیتی ہیں۔
غرض یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مصنفہ ’’نئے زمانے کی نمائندہ لکھاری‘‘ کے طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے افسانے انسان کو اس کے ماضی سے حال کی جانب سفر کی داستان سناتے ہیں۔ اس کے ’’آج‘‘ کے چیلنجز اور ان چیلنجز کی بنا پر اس کی مجروح ’ذات‘ کی کشمکش کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔
مصنفہ کا اندازِ بیاں سادہ اور دلکش ہے۔ جہاں موضوعات کی گہرائی دلچسپ ہے وہیں الفاظ اور جملوں کی بناوٹ نے افسانوں کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ مکالمہ نگاری، کردار سازی سمیت افسانوں میں موجود کئی جملے ان کی فنی پختگی کا بہترین ثبوت ہیں۔
پریس فار پیس کی تمام ٹیم کو خاص طور پر داد کہ کتاب مواد کے لحاظ سے جتنی بہترین تھی طباعت بھی اسی کے شایانِ شان نہایت عمدہ کی گئی ہے۔ کتاب ہاتھ میں لیتے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اتنی عمدہ تخلیق کو سامنے لانے پر ظفر اقبال صاحب اور تمام ٹیم کو بہت مبارکباد۔ مصنفہ کے لیے نیک خواہشات اور دعائیں۔
کرن عباس کرن