بی آر آئی ، صرف انفراسٹرکچر اور معاشی منصوبوں کا ہی نہیں ثقافت کے فروغ کا انیشئیٹو بھی ہے۔ تحریر : سارا افضل بیجنگ
پانچ ہزار سال پرانی تاریخ و ثقافت کا حامل چین ، یونان ، مصر اور بابل کے ساتھ انسانی تاریخ کی چار عظیم تہذیبوں میں سے ایک ہے۔چین کا سفر ان لوگوں کے لیے ایک بھرپور اور یادگار تجربہ ہوتا ہے جو صرف خوبصورت قدرتی مقامات نہیں بلکہ دوسری قو میتوں اور ثقافتوں کے بارے میں جاننے کے بھی شوقین ہوتے ہیں اور یہ صرف اس لیے نہیں کہ انہیں یہاں پر آباد ۵۶ قومیتوں کی رنگا رنگ تہذیب جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہاں پر تمام تر جدت و ترقی کے باوجود تہذیبی و ثقافتی ورثے کو “بوسیدہ” یا ” متروک سامان ” کی طرح نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ ہزاروں برس پرانے آثار کو جدید شہروں میں ایک نگینے کی طرح جڑا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے دنیا کی سب سے متاثر کن چینی تہذیب جس کا ثقافتی رنگ روپ بننے میں ہزاروں سال لگے ہیں، آج تک زندہ ہے۔
ماضی میں ، دو ہزار سال قبل دوستی اور تجارت کی خواہش میں اس وقت کی چینی قوم نےدور دراز علاقوں کا سفر کیا اور ایشیا، یورپ اور افریقہ کو ملانے والی بری شاہراہ ریشم بنائی جس نے وسیع عالمی ثقافتی تبادلوں کے دور کا آغاز کیا ۔پھر ایک ہزار سال قبل اسی قوم نے مشرق اور مغرب کو ملانے والی سمندری شاہراہ ریشم کا آغاز کیا جس سے لوگوں کے درمیان قریبی رابطے کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ۔ہزاروں سال پرانی ، کئی ہزار میل طویل قدیم ریشم کے راستے نہ صرف تجارت ہوئی بلکہ یہ ثقافتی تبادلوں کی شاہراہ بھی بنی جس نے انسانی ترقی میں بہت بڑا حصہ ڈالا۔آج کے دور میں چین کی جانب سے ۲۰۱۳ میں چین کے صدر شی جن پھنگ کا پیش کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، چینی قوم کی رگوں میں دوڑتے اسی جذبے کی جدید شکل ہے جو قدیم شاہراہِ ریشم کی تعمیر میں کارفرما تھا ۔ قدیم شاہراہ ریشم نے ایک تہذیب کے عقائد ، نظریات ،زبانوں ، رسوم و رواج اور روایات کو دوسری تہذیبوں تک متعارف کروانے میں ایک پل کا کردار ادا کیا اور چینی تہذیب و تمدن اور دیگر تہذیبوں کے ثقافتی تبادلے اور انضمام کی وہ راہ کھولی جس سے ایک ایسا مشترکہ اور ہم آہنگ ورثہ تشکیل پایا جو آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی دور کی کہانی بانٹتا ہے۔ پرانے دور کی انہی کہانیوں کے تانے بانے آج قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کے ساتھ ساتھ ماضی کے مشترکہ تاریخی و ثقافتی ورثے اور جدید دور میں چین کے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں ثقافتی تبادلوں کی اہمیت کو معاشی ترقی ،انفراسٹرکچر نیز تعلیمی اور عوامی تبادلوں کے ذریعے مزید اجاگر کرتے ہیں ۔
چین جیسی تاریخ رکھنے والے ملک کے لیے یہ فطری امر ہے کہ وہ دنیا کی دیگر تہذیبوں میں نہ صرف دلچسپی لیتا ہے ، ان کا احترام کرتا ہے بلکہ ان کے تحفظ اور فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی پیش پیش نظر آتا ہے۔قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی میں چین کا مقصد نہ صرف تاریخی تجارتی راستے کو دوبارہ بحال کرنا تھا بلکہ عالمی اور علاقائی تعاون کے لیے شاہراہ ریشم کی ثقافتی اہمیت کو بھی اپنانا تھا۔ شاہراہ ریشم کا جذبہ، امن وتعاون ، کھلے پن و اشتراک اور باہمی سیکھ وباہمی مفاد کا جذبہ ہے اور یہی ، بی آر آئی کا رہنما اصول ہے ، یعنی شعبوں میں عملی تعاون کو فروغ دینا اور باہمی سیاسی اعتماد ، معاشی انضمام اور ثقافتی شمولیت پر مبنی مشترکہ مفادات ،ذمہ داریوں اور مشترکہ تقدیر پر مشتمل برادری کی تعمیر کرنا ۔
چین باہمی تعاون، احترام اور اعتماد کی بنیاد پر ایسے منصوبوں پر کام کر رہاہے جو نہ صرف عالمی مسابقت کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں انقلاب برپا کرتے ہوئے، ثقافت اور لوگوں کے درمیان روابط کو بھی فروغ دے رہے ہیں ۔ چونکہ آج دنیا نقل و حمل کے جدید ذرائع ، موبائل ،انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر مبنی سوشل پلیٹ فارمز کی بدولت ایک دوسرے سے پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہےلہذا ان شعبوں پر دنیا کی توجہ سب سے زیادہ ہے اور انہی میں بڑی سرمایہ کاری بھی کی جاتی ہے، لیکن جس چیز کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی آثار ہیں ۔ حالانکہ مختلف ثقافتیں ایک ایسا اثاثہ ہیں کہ جو لوگوں کو ، ان کی سوچ کو اکٹھا کرنے اور دل جیتنے میں مدد کرتا ہے اور کسی بھی ملک کے ثقافتی عناصر دنیا اور اپنے بارے میں کسی ملک کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے ایشیائی تہذیبوں کے مکالمے سے خطاب میں کہا تھا کہ “ہر تہذیب انسانی تخلیق کی کرسٹلائزیشن ہے، اور ہر ایک اپنے طور پر خوبصورت ہے”۔ بی آر آئی اسی متنوع خوبصورتی کے تحفظ اور اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
دس سال قبل شروع ہونے والا بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ، ایک وژن سے حقیقت اور ایک فریم ورک سے ٹھوس عملی منصوبوں میں تبدیل ہوا ہے. مختلف ممالک اور ثقافتوں کے مابین تعلقات بی آر آئی تعاون کی سماجی بنیاد ہیں۔ اس میں شریک ممالک نے قدیم شاہراہ ریشم کے دوستانہ تعاون کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہوئے ، ثقافت، سیاحت، تعلیم، تھنک ٹینک اور ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں تعاون کیا اور تہذیبوں کے مابین باہمی تعلیم، ثقافتی انضمام اور جدت طرازی کو فروغ دیا ہے۔ جون 2023 کے آخر تک چین نے بی آر آئی میں شامل144 ممالک کے ساتھ ثقافتی اور سیاحتی تعاون کی متعدد دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔چین نے ان ممالک کے ساتھ مشترکہ تعاون کے پلیٹ فارم بنائے جن میں سلک روڈ انٹرنیشنل لیگ آف تھیٹرز، سلک روڈ انٹرنیشنل میوزیم الائنس، سلک روڈ آرٹس فیسٹیولز نیٹ ورک، سلک روڈ انٹرنیشنل لائبریری الائنس اور سلک روڈ انٹرنیشنل الائنس آف آرٹ میوزیم اینڈ گیلریز شامل ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کے کل 562 ارکان ہیں ، جن میں 72 شراکت دار ممالک کے 326 ثقافتی ادارے شامل ہیں۔چین نے بین الاقوامی ثقافتی تبادلوں کو بڑھانے کے لیے ثقافتی شاہراہ ریشم پروگرام کا آغاز کیا ، اس کے علاوہ دیگر سگنیچر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جا تا ہے ۔ برونائی، کمبوڈیا، یونان، اٹلی، ملائیشیا، روس اور آسیان کے ساتھ مل کر چین نے مخصوص سالوں میں ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کی مشترکہ میزبانی بھی کی ہے۔ چین اور بی آر آئی ممالک نے ثقافتی آثار کی نمائشوں، فلم فیسٹیولز، آرٹ فیسٹیولز، کتب میلوں اور میوزک فیسٹیولز سے لے کر دیگر کئی تقریبات کی مشترکہ میزبانی کی ہے اور مشترکہ طور پر ایک دوسرے کےریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن پروگرامز کا ترجمہ کرنے اوران کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں بھی قابلِ قدر کام کیا ہے۔ چین نے 44 ممالک میں 46 ثقافتی مراکز قائم کیے ہیں جن میں سے 32 شراکت دار ممالک ہیں۔ چین نے 18 ممالک میں 20 سیاحتی دفاتر قائم کیے ہیں جن میں سے آٹھ شراکت دار ممالک میں ہیں۔ اس کے علاوہ بی آر آئی تھیم پر مبنی تھیٹر و تخلیقی آرٹ اور اس کے فروغ کے منصوبے، بیلٹ اینڈ روڈ انٹرنیشنل آرٹ پروجیکٹ نیز بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے ثقافتی فروغ و تحفظ کے منصوبوں پر بھی عمل درآمد کیا گیا ہے اور ایشیائی ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے چین کی خدمات نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
چین میں ایک کہاوت ہے ، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دنیا بھر کے تمام لوگ ایک خاندان ہیں. اسی تصور کے تحت چین نے تمام ممالک کی تہذیب و ثقافت کو ہم آہنگ کرنے اور انہیں آپس میں مربوط کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے اقدامات کیے اور ، بی آر آئی نے یہ عملاً ثابت کیا ہے کہ یہ انیشئیٹو صرف تنہا چین کا ہی نہیں ہے بلکہ تمام شراکت داروں کی ہم آہنگی اسے کامیاب بناتی ہے اور یہ ” ہم آہنگی ” ماضی میں بھی چین کے لیے اہم تھی اور آج بھی اہم ہے اور چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو مختلف ثقافتوں کے درمیان اسی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے روابط یں سہولت فراہم کرتے ہوئے عالمی برادری کےاستحکام کو برقرار رکھنے میں ایک تعمیری کردار ادا کر رہاہے ۔