ڈاکٹر توصیف تبسم : لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا۔ | تحریر : ظفر معین بلے جعفری
ولادت 3 ۔اگست 1928 بدایوں ۔۔ وفات ۔5 اکتوبر 2023 ۔اسلام آباد
ڈاکٹر توصیف تبسم (ولادت 3 ۔اگست 1928 بدایوں ۔۔ وفات ۔5 اکتوبر 2023 ۔اسلام آباد) ممتاز اسکالر ، ادیب ، قادرالکلام شاعر اور استاذالاساتذہ ڈاکٹر توصیف تبسم کی ۹۵ برس کی عمر میں ۵۔ اکتوبر ۲۰۲۳ کی صبح مختصر علالت کے بعد اسلام آباد میں انتقال فرما گئے۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن ۔ ڈاکٹر توصیف تبسم کے فرزند ارجمند برادر محترم جناب عارف توصیف نے اگر از خود ہمیں مطلع نہ کیا ہوتا تو ہم ہرگز یقین نہ کر پاتے کیونکہ یہ خبر دینے سے ند گھنٹوں قبل ہی ہی انہوں نے بتایا تھا کہ قبلہ توصیف تبسم صاحب کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے۔ مگر افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر توصیف تبسم منجھے ہوئے قادرالکلام شاعر ، کہنہ مشق ادیب ، ممتاز اسکالر اور معروف دانشور تھے ۔نظم اور غزل دونوں مقبول اصناف ِ سُخن میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور شاہکارادب تخلیق کیا ۔ان کا شمار معتبر ناقدین اور ادباء میں کیا جاتا اور ۔دنیائے اردو ادب میں ان کا تذکرہ تعظیم و تکریم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر توصیف تبسم بلاشبہ اردو ادب کا اثاثہ تھے اور ان کا کلام ہمارا گراں قدر سرمایہ۔ ہتھیلی پر لکھی نظمیں ” ڈاکٹر توصیف تبسم کی شاہکار نظموں کا مجموعہ ہے ۔ اور یہاں ان کے شعری مجموعے کوئی اور ستارہ کا تذکرہ کرنا یقینا“ بے محل نہ ہوگا۔
ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے حلقہ ٕ احباب بلکہ مقربین خاص میں سے ہیں پروفیسر ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کے فرزندان میں سے میرے خیال میں جناب عارف توصیف صاحب کو کافی حد تک سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کے مراسم ، روابط اور تعلقات و رفاقت کا اندازہ ہے۔ اور اس توسط سے ہم اپنا شمار ان خوش نصیبوں میں کرتے ہیں کہ جو مسلسل ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کی دعاٶں سے براہ راست فیضیاب ہوتے تھے ۔ ہمارا ان سے فون پرمسلسل رابطہ رہتا اوروہ ہمیشہ ہمیں اپنی انمول دعاٶں سے نوازتے تھے اور اپنی ادبی زندگی کے رفیق قبلہ سیدفخرالدین بلے شاہ صاحب اورانکی ادبی وثقافتی خدمات کو شاندارالفاظ اورانداز میں خراج پیش کرتے تھے ۔ ان کی حسین یادوں اور باتوں میں ہمارے بابا سائیں سید فخرالدین بلے کا انتہائی احترام کے ساتھ تذکرہ سن کرہمیں ہمیشہ یاد آتا کہ ہمارے والد توخود ڈاکٹرتوصیف تبسم کا بےحد احترام فرماتے تھے اورہمیشہ توصیف بھائی صاحب کہہ کرمخاطب کیا کرتے تھے اور ان کی تخلیقات کا بھر پور تجزیہ فرمایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر توصیف تبسم کے فن اور شخصیت کے حوالے سے نوید صادق صاحب نے کارواں کا خصوصی شمارہ مرتب کیا۔ ہمیں یاد نہیں کہ ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب سےجب بھی مکالمہ ہوا ، دوران گفتگو انہوں نے آنس معین کے شعری تیور کے حوالے سے بات نہ کی ہو۔
ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کا اصل نام محمد احمد توصیف ، جبکہ تخلص توصیف تھا ۔3؍ اگست1928 کوبدایوں کےایک قصبہ سہسوان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد راولپنڈی آگئے۔ گورڈن کالج، راولپنڈی سےایم اے کاامتحان پاس کیا۔’’منیرشکوہ آبادی‘‘پرمقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔نظم بھی کہتے تھے مگر غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔ 1952 سے باقاعدہ مقتدر ادبی رسائل میں آپ کے کلام چھپ رہا ہے۔ان کی شناخت ایک مبصر کی حیثیت سے بھی ہے۔’’کوئی اور ستارہ‘‘ کے نام سے ان کے شعری مجموعے پر انہیں علامہ اقبال ہجرہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔’’مثنویات دہلی کا تہذیبی ومعاشرتی مطالعہ‘‘ کے موضوع پربھی تحقیقی مقالہ لکھ کر تہلکہ مچاچکے ہیں ۔جہاں اردو بولی ، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں آپ کو ڈاکٹر توصیف تبسم کے چاہنے والے ضرور ملیں گے۔۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ رہنے والے ممتاز شاعر اور نقاد جناب پروفیسر ڈاکٹر اسعد بدایونی مرحوم قابل صد احترام جناب پروفیسر ڈاکٹر توصیف تبسم کے قریبی عزیزوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر اسعد بدایونی بہت جلد داغ مفارقت دے گئے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ جدید تر غزل کا شناخت نامہ کے عنوان کے تحت ہند و پاک ممتاز شعراء کی غزل گوئی کے حوالے اپنے لکھے ہوئے تنقیدی مضامین کو یکجا کر رہے تھے۔ آنس معین ۔ ایک اچھوتی اور نرالی طرز سخن کا بانی ، ڈاکٹر توصیف تبسم ۔ جدید اردو غزل کا ایک بڑا نام اور سید فخرالدین بلے ۔ اردو غزل کا معتبر حوالہ اور خالد احمد ۔ جدید اردو غزل کا توانا شاعر جیسے دیگر مقالات و مضامین کو اپنے ناقدانہ تجزیوں کے مجموعے میں شامل کرنا چاہ رہے تھے اور بقول پروفیسر ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کے اس مجموعے کی ترتیب و تدوین کا کام مکمل کرتے ہی وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
(آنس معین)
توصیف تھے ادب کی ، تبسم تھے سخن کا محترم پروفیسر ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کو دنیائے اردو ادب میں جو مقبولیت ، شہرت اور نیک نامی حاصل ہوئی ہے ، یہ بہت کم خوش نصیبوں کو میسر آتی ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ مناظر گھوم رہے ہیں کہ جب ایک محترم توصیف تبسم صاحب لاہور تشریف لائے تو ماہنامہ ادب لطیف کی مدیراعلی محترمہ صدیقہ بیگم اور مدیر ماہنامہ تخلیق جناب اظہر جاوید صاحب نے یہ خبر ملتے ہی فورا سے پہلے سید فخرالدین بلے صاحب کی اقامت گاہ پر پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہمارے پیارے مدیر ماہنامہ بیاض برادر محترم جناب خالد احمد بازی لے گئے اور برادرم ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی کے ہمراہ سب سے پہلے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر وحید قریشی ، جناب مسعود اشعر اور اسرار زیدی ہی نہیں بلکہ شہزاد احمد صاحب بھی بلا تاخیر پہنچنے والوں میں سر فہرست رہے۔ اس تمام تر ہبڑ دبڑ کی وجہ یہ تھی کہ جناب توصیف تبسم صاحب کی لاہور میں دیگر اور نجی نوعیت کی مصروفیات بھی تھیں اور انہوں نے ازراہ کرم اپنے محب جناب سید فخرالدین بلے صاحب کی خواہش کے احترام میں تین ، چار گھنٹے ادبی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ کے لیے مختص فرمائے تھے۔ جب مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ میں سے اکثر کی تشریف آوری ہوچکی تو تمام احباب نے جناب توصیف تبسم صاحب کی کرم نوازی کا شکریہ ادا کیا اور ان سے جلد ہی دوبارہ لاہور میں قافلہ پڑاؤ میں شرکت کا مطالبہ بھی کیا ڈاکٹر توصیف تبسم نے جلد ہی دوبارہ قافلہ کی دعوت پر پڑاؤ میں شرکت کا یقین دلایا اور محض یقین ہی نہیں دلایا بلکہ ایفائے عہد میں تاخیر بھی نہیں ہونے دی اور چند ماہ بعد ہی سید فخرالدین بلے اور ادبی تنظیم قافلہ کو میزبانی کا اعزاز بخشا۔ سید فخرالدین بلے ، جناب خالد احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور جناب ڈاکٹر وحید قریشی نے بھر پور انداز میں ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کے ادبی مقام و مرتبے پر روشنی ڈالی اور ان کی ادبی خدمات کو سراہا تھا ۔
نظم : آگہی نظم نگار : ڈاکٹر توصیؔف تبسّم
تم نے تو کہا تھا ہر حقیقت
اِک خوابِ ابد ہے در حقیقت
رنگوں کے سراب سے گُزر کر
رعنائیِ خواب سے گُزر کر
نیرنگئ زیست سب فسانہ
کیا گردِشِ وقت، کیا زمانہ
تاروں بھرے آسماں کے نیچے!
کُھلتے نہیں نُور کے دَرِیچے
تارِیک ہے زندگی کا رستا
گہرے ہوں ہزار غم کے سائے
چلتے رہو یُونہی چشم بَستہ
اِک یاد کو حرزِ جاں بنائے
لیکن ، یہ حقیقتوں کے پیکر !
پاکوب، برہنہ، دست بر سر
کرتے ہیں نگاہ سے اشارے
کہتے ہیں کہ، ہم بھی ہیں تمھارے
اُڑتی ہُوئی گرد راستوں کی
لائی ہے خبر مُسافروں کی
کیا دیکھیے، کوئی نِکل کے آگے
مسدُود ہر اِک رہِ سفر ہے
ہر ضرب پہ یا ں اجل کے آگے
مجبور حیات بے سپر ہے
ٹھہرا ہے کہیں گُزرتا لمحہ
جاگے ہُوئے درد کی صدا پر
ہنستے ہیں دلِ شکستہ پا پر
سمٹے ہُوئے پر خُود آگہی کے
پھیلے ہُوئے کوس زندگی کے
طے کر نہ سکیں گے لوگ جیسے
مُرجھائے ہُوئے چمن کے پُھولو!
بولو ، کہ اجل کا ہاتھ کیسے
شاخوں سے اُتارتا ہے ہم کو
مٹّی میں سنوارتا ہے ہم کو
اللہ غریق رحمت کرے