فرقہ واریت کی آگ۔|| تحریر: اقبال حسین اقبال

گلگت بلتستان کی بیس لاکھ آبادی میں تین قسم کے مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔یہ شیعہ اکثریتی آبادی والا خطہ ہے۔دوسرے نمبر پر اہلنست و الجماعت کے لوگ ہیں۔یہ دیامر، چلاس، جگلوٹ اور کشروٹ کے علاقوں میں آباد ہیں۔اسماعیلی برادری تعداد میں قدرے کم ہیں’مگر منظم اور مربوط نظام کے تحت جی رہے ہیں۔یہ ضلع ہنزہ، غذر اور گاہکوچ کے علاوہ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔آج سے تیس پینتیس سال قبل گلگت بلتستان کا شمار پاکستان کے پُرامن خطوں میں ہوتا تھا۔ان تینوں مسالک کے اندر کوئی مسلکی تنازع نہیں تھا۔آپس میں رشتے تھے۔ایک دوسرے کی رسومات میں بھرپور شریک ہوتے تھے۔شیعہ اجتماعات میں سنی برادری شریک ہوتی تھی۔محرم کے ایام میں سبیلیں لگاتے تھے۔تبرکات کا اہتمام کرتے تھے۔بھائی چارے کا ایک خوب صورت ماحول ہوا کرتا تھا۔

گلگت بلتستان میں 1988ء کی جنرل ضیاء الحق کی لشکر کشی کے بعد حالات بدستور خراب ہوتے گئے اور فرقہ ورانہ ماحول نے جنم دیا۔ایک دوسرے کو کافر قرار دینے، مقدسات کی توہین اور ہرزہ سرائی کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔2005ء میں آغا سید ضیا الدین رضوی کی شہادت کے بعد فرقہ ورانہ فسادات میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔کئی طرح کے امن معاہدے ہوئے مگر یہ بُخارات بن کر ہوا میں اُڑتے گئے۔رواں سال ماہ محرم میں ضلع دیامر اور چلاس کے امن کمیٹیوں کی جانب سے باہمی اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی اچھی کوششیں کی گئی تھی اور انھوں نے مجالس امام حسین علیہ السلام میں شرکت کی۔عاشورا کی جلوسوں میں شامل ہو کر اتحاد کی عمدہ مثال قائم کی۔باہمی اتحاد و اتفاق کی ایک خوش گوار فضا پیدا ہو گئی تھی۔پچھلے دنوں سکردو میں آغا سید باقر حسین الحسینی کی ایک نجی محفل میں امیر معاویہ کے متعلق متنازع گفتگو ہوئی اور بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر فرقہ ورانہ ماحول نے جنم دیا۔اہلسنت برادری کی جانب سے احتجاجی مظاہرے ہوئے حالات میں کشیدگی پیدا ہو گئی  اور یہ سلسلہ کئی روز چلتا رہا جس کی وجہ سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ابھی اس درد و کرب کے عالم سے نہیں نکلے تھے کہ اہلسنت و الجماعت کے قائد قاضی نثار صاحب کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور امام مہدی علیہ السلام کی شانِ اقدس میں توہین آمیز کلمات نے اہل تشیعہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا ہے۔قاضی صاحب کی اس بیان کو لے کر مذمتی مظاہرے ہو رہے ہیں۔آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اور سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔قاضی نثار صاحب بہت بڑی مسلک کے قائد ہیں۔وہ جانتے بھی ہیں کہ ان کا متنازع بیان فرقہ واریت کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پورا گلگت بلتستان فرقہ واریت کی آگ میں جلتا ہے قاضی صاحب کا متنازع بیان دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔اس بیان نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا ہے۔یہ کون کروا رہا ہے۔اس طرح کا ماحول جنم دینے میں کس کا ہاتھ ہے۔یقیناً یہ کسی تیسری قوت کی سازش معلوم ہوتی ہے۔

3 ستمبر کو امامیہ جامع مسجد گلگت میں قائدِ ملت آغا سید راحت حسین الحسینی کی قیادت میں ملت جعفریہ کے تمام علما، وکلاء، دانشور، عمائدین، بزرگ اور یوتھ کا ایک عظیم الشان اجتماع ہوا جس میں آغا راحت نے واضح طور پر بتایا ہے کہ 2005ء سے جتنے بھی امن معاہدے ہوئے ہیں ان سے دست برداری کا اعلان کرتا ہوں اور آئندہ کسی بھی قسم کا امن معاہدہ کرنے سے سختی سے منع کرتا ہوں۔گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام  اہلسنت ہمارے بھاٸی ہیں۔اہلسنت اپنے صفوں میں چھپے تکفیریوں اور فسادیوں کو نکال باہر کرے تاکہ خطے میں امن و امان قاٸم ہو۔بہر حال ان دو علما کی غیر محتاط تبصروں نے ارضِ شمال کے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے کہ آئے روز حالات سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔علما کی غیر ذمہ دارانہ گفت گُو اور متنازع بیانات سے پورے علاقے کا امن تہہ و بالا ہو چکا ہے۔عوامی حلقوں میں بے چینی اور سراسیمگی کی کیفیت طاری ہے۔لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔انٹرنیٹ کی سروس بند ہے۔کاروبارِ زندگی ماند پڑ گئی ہے۔یوں گلگت بلتستان فرقہ واریت کی آگ میں سُلگ رہا ہے’مگر اس سُلگتے آگ کو بھجانے کے لیے کوئی میدانِ عمل میں اُترنے کو تیار نہیں ہے۔

IHI
اقبال حسین اقبال

اقبال حسین اقبال کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link