سفید پوشی اور نمبر پلیٹیں! | تحریر: شیخ خالد زاہد

اگر آپ کے محلے کی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے روزانہ کوئی نا کوئی چھوٹا موٹا حادثہ رونما ہوتا ہے، آپ کے محلے کے گٹر بغیر ڈھکن کے ہیں اور گندے پانی کی نکاسی کا کوئی باقاعدہ نظام کارگر نہیں ہے جس کی وجہ سے علاقہ بدبو زدہ رہتا ہے، بجلی اور گیس آپکے علاقے میں کسی قرب و جوار میں رہنے والے مہمان کی طرح آتی جاتی ہے، روزانہ صبح روزگار کیلئے گھر سے چک چک اور کل کل کرتے ہوئے نکلتے ہیں اور ان سب باتوں کا ذمہ دار حکومت وقت کو ٹہراتے ہیں تو یہ طے ہوا کہ آپکے بس میں کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک کے اگر کچرا لینے والا ایک دن نا آئے تو کچرے کو بھی گھر کے اندر ہی رکھنا پڑتا ہے۔اس صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے مستقبل کے معمار (جو، اب بیمار رہتے ہیں) اپنی اپنی درسگاہوں کی راہ لیتے ہیں اور وہ ان سب پریشانیوں سے اتنے مانوس ہوچکے ہیں کہ بغیر کسی چوں چرا کے اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں (ممکن ہے وہ جلد از جلد اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں)۔گوکہ وہ جہاں علم حاصل کرنے کے مقدس فریضہ نبہانے جا رہے ہیں وہاں پر بھی حالات کچھ اس سے مختلف نہیں ہوتے، اساتذہ ہیں توطالب علم غائب اور اگر دونوں ہیں تو بجلی غائب غرض یہ کہ صورتحال کسی کے قابو میں نہیں ہے اور نا ہی اس صورتحال کے سدباب کرنے کو کوئی تیار ہے، گویا ایک نا رکنے والا بے حسی کا تسلسل ہے۔ خواص اس لئے نہیں کہ وہ اپنی اپنی زندگیوں کو بغیر پاؤں زمین پر رکھے گزارتے جا رہے ہیں۔

ہم شہرِ کراچی کی بات کرتے ہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ پاکستان کی معیشت سترفیصد بوجھ اس شہر کے کاندھوں پر ہے لیکن اس کماؤ پوت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، بس سب اسے ذبح کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔بظاہریہاں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن معلوم نہیں کیوں سدِ باب پانی سر سے گزر جانے کے بعد کیا جاتا ہے یعنی جب سب کچھ برباد ہوچکا ہوتا ہے۔ عوام کو سفری سہولیات تب فراہم کی گئیں جب عوام بری طرح سے مشکلات میں گھر گئے، عوام کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے وہ چنگ چی رکشے بند کردئیے گئے جن کی عوام عادی ہوچکی تھی، عوام کی سفری سہولت کوآسان بنانے کیلئے شاہراہ بھٹو کی تعمیر زور و شور سے کروائی گئی اس شاہراہ سے منسلک ایک انتہائی دیرینہ پل جو کورنگی ندی میں تعمیر کے آخری مراحل میں ہے، گاہے بگاہے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین عوام کے دروازوں پر فراہم کی جارہی ہے۔ اب جیسا کہ گزشتہ دنوں لیاری کے علاقے میں ایک مخدوش رہائشی عمارت اپنی خستہ حالی کی وجہ سے زمین بوس ہوگئی اور اپنے ساتھ انسانی زندگیوں کو بھی نگل گئی۔ شہر کراچی میں جتنی بھی تاریخی عمارتیں ہیں وہ تو یقینا نئی دور کی پرانی عمارتوں سے بہت زیادہ مضبوط دیکھائی دیتی ہیں بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کن بنیادوں پر کی جائے گی اور ان میں رہنے والے مکینوں کو جن کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور سر چھپانے کی یا اپنی سفید پوشی قائم رکھنے کی کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ جہاں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے حکومت اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے وہیں حکمت عملی بنانے والوں کو ان عوامل کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جن سے عوام پر معاشی بوجھ بڑھتا ہے یعنی اگر کسی بھی قسم کے عملی کام کو شروع کرنا ہے تو پہلے عوام پر کتنا معاشی بوجھ پڑ سکتا ہے اس کا تخمینہ لگایا جائے تاکہ اس کام میں ردو بدل کر کے کم سے کم معاشی بوجھ ڈالا جائے۔ اب آپ پہلے گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی تبدیلی اور اب موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹ کی تبدیلی کے ایک ایسے مشکل ترین عمل سے دوچار کر دیا گیا ہے جس میں ایک تو وہ رقم جو بطور فیس رکھی گئی ہے اور دوسری رقم جو اس سے کہیں زیادہ طلب کی جارہی ہے پھر یہ بھی معلوم کرنا آسان نہیں کہ یہ نمبر پلیٹوں کا عمل کب مکمل ہوگا یا ہوگا بھی نہیں بلکہ عوام کو چنگل میں پھنسائے رکھنے کیلئے اور قانون کو سہارا دینے کیلئے اسے اندھیرے میں رکھ کر چلایا جاتا رہے گا۔

درحقیقت کراچی شہر جو اب اپنی حدوں سے کہیں زیادہ باہر نکل چکا ہے، جو ایک باقاعدہ منظم حکمت عملی کے تحت عمل میں آرہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق کراچی میں کراچی کے شناختی کار ڈ والوں سے کہیں زیادہ تعداد اب ملک کے دوسرے شہروں سے آکر بسنے والوں کی ہے۔ جس کی وجہ سے شہر کاانتظامی ڈھانچا تقریباً برباد ہوچکا ہے اور حکومت بنیادی مسائل پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔اگر واقعی کراچی شہر کی بہتری کا کوئی منصوبہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے اور کراچی کو واپس عروس البلاد یا بین الاقوامی شہروں کی فہرست میں شامل کرانا ہے تو اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا اور ہر حصے کا الگ مئیر ہونا چاہئے تاکہ منظم طریقے سے شہر کے بنیادی مسائل پر توجہ دی جاسکے، بصورت دیگر کراچی، کسی کچرے کے ڈھیر (بطور اصطلاح)میں بہت تیزی سے تبدیل ہوتا چلا جائے گا،چاہے آپ یہاں طرح طرح کی بسیں چلائیں یا دیگر نمود و نمائش کے کام کروائیں جب تک بنیادی سہولیات پر کام نہیں ہوگا عوامی نمائندے عوام کیساتھ نہیں کھڑے ہونگے، سڑکیں بنوانے میں، نکاسی آب کا مسلۂ حل کرانے میں، پینے اورعام ضرورت کے پانی کی ترسیل کو یقینی بنانے میں، درسگاہوں میں حاضریوں کو یقینی بنانے (اساتذہ اور طالبعلم)میں، ہسپتالوں کی حالتِ زار پر باز پرس کرنے میں تب تک نا تو حالات قابو میں آئیں گے اور نا ہی شہر کراچی امن کا گہوارہ بن سکے گا۔سب سے دکھ کی بات کہ سفید پوش لوگ اپنی سفید پوشی کے سفید کفن میں لپٹ کر قبرستانوں میں منتقل ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک اضافی مگر انتہائی ناگزیر ضرورت، شہر میں ٹاؤن کی سطح پر کتب خانوں کو عام کیا جائے۔ بظاہر تو سندھ حکومت کراچی کی بہتری کیلئے کوشاں دیکھائی دیتی ہے۔نالوں کی صفائی کا کام ہورہا ہے لیکن فضلا لے جانے والے ڈمپر سارے شہر کو اس کام سے آگاہ کرتے ہوئے سڑکوں پر اس فضلا کو گراتے ماحول کو خراب کرتے منزل کی طرف جاتے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کراچی شہر پر حق جتانے والی سیاسی جماعتیں بھلا کیا چاہتی؟کیونکہ دوران انتخابات (عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی یا اداراتی)جو ان کے دعوے یا وعدے ہوتے ہیں وہ عملی طور پر کہیں دیکھائی نہیں دیتے بلکہ ان میں سے اکثر تو وہ ہوتے ہیں جو زمینی حقائق سے بالاتر ہوتے ہیں، کراچی والے یہ سمجھنے سے تاحال قاصر ہیں۔کیونکہ متحدہ قومی مومنٹ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں کراچی کے مسائل کادھنڈھورا تو پیٹتی رہتی ہیں لیکن درحقیقت سد باب صرف اور صرف بڑی گاڑیوں میں گھومنے اور سماجی ابلاغ پر ان کی تشہیر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

خدارا شہر کراچی کے بنیادی مسائل پر سب مل کر توجہ دیں، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ صاحب، آپ کی قابلیت پر تو کوئی شک نہیں ہے لیکن آپ ایک ایسی مجلس عاملہ (ورکنگ کمیٹی)بنائیں جس میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کے لوگ ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ناصرف مسائل کی نشاندہی کریں اورساتھ ہی فوری طور پر ان کو حل کرنے کے احکامات آپ کے خصوصی اختیارات سے جاری کریں، یقین جانئیے بڑے بڑے مسائل تو کوئی پوچھے گا ہی نہیں اگر صاف پانی کی ترسیل کا نظام درست ہوجائے، نکاسی آب کا مسلۂ حل ہوجائے، جو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں ان کی باقاعدہ مرمت ہوجائے، درسگاہوں میں اساتذہ کی حاضری یقینی ہوجائے تو ہم سمجھیں گے کہ حکومت وقت اور دیگر سیاسی جماعتیں سیاست نہیں بلکہ عوام کی خدمت پرواقعی یقین رکھتی ہے۔آپ اپنے صوابدیدی اختیارات سے ایسے تمام اقدامات کو جزوقتی ِفل فور معطل کریں جو عوام پر معاشی بوجھ بن رہے ہیں تاکہ آپ، لوگوں کی خود کشیوں کا سبب نا بنیں۔ قارئین تنقید کی عینک اتار کر فیصلہ کریں کیا ایسا نہیں ہے۔

شیخ خالد زاہد کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link