چینی معاشرے میں اساتذہ کا وقار۔ || تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ابھی حال ہی میں 10 ستمبر کو چین میں یوم اساتذہ منایا گیا، یہ دن ملک بھر میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔چین نے جہاں ہمیشہ فروغ تعلیم کو اہمیت دی ہے وہاں اساتذہ کی تربیت اور اُن کی فلاح و بہبود کو بھی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ چین کی جانب سے یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ 2027 تک معیاری اور متوازن بنیادی نظام تعلیم  قائم کرے گا۔چین2035 تک لازمی تعلیمی خدمات کے معیار اور مساوات کے لحاظ سے دنیا کے صف اول کے ممالک میں سے ایک بننا چاہتا ہے۔اس حوالے سے وضع کردہ منصوبے کے مطابق آنے والے برسوں میں چینی حکام اسکولوں کی سہولیات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے درمیان تعلیم کے فرق کو ختم کرنے کے لئے کام کریں گے اور وسطیٰ اور مغربی چین میں کم ترقی یافتہ علاقوں پر وسائل خرچ کیے جائیں گے ۔اس دوران شہری اور دیہی علاقوں، مختلف اسکولوں اور مختلف سماجی گروہوں کے درمیان تعلیم کے فرق کو بھی دور کیا جائے گا۔چینی حکام کے مطابق موئثر کوششوں سےدیہی اسکولوں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اسکول جانے کی عمر کے تمام دیہی بچوں کو لازمی تعلیم ملے جبکہ دیہی اسکولوں کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے  انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مزید نئی جہتیں متعارف کرائی جائیں گی۔

 یہ بات بھی خوش آئند اور قابل تقلید ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ تعلیم اور معاشرے میں اساتذہ کے وقار کو اہمیت دی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سب سے آگے رکھا ہے۔ انہوں نے متعدد تقاریر اور اقدامات کے ذریعے، بارہا یہ زور دیا کہ اساتذہ کی قدر کی جائے اور تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے متعدد دوروں اور معائنوں کے دوران غربت زدہ علاقوں میں تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایات جاری کیں۔شی جن پھنگ کہتے ہیں کہ “بہت سارے اساتذہ نے مجھے پڑھایا ہے، اور مجھے وہ سب آج بھی یاد ہیں ۔انہوں نے مجھےعلم اور انسانیت کے اصول سکھائے ہیں اور مجھے بے انتہا فائدہ پہنچایا ہے۔”شی جن پھنگ نے اپنی ابتدائی اور جونئیر ہائی سکول کی تعلیم بیجنگ با ائی اسکول سے حاصل کی۔اس کے بعد وہ شدید سیاسی و انتظامی مصروفیات کے باوجود ہمیشہ اپنے اساتذہ سے ملنے کے لئے وقت نکالتے رہے۔1999 میں ، اُن کی ایک سابق استانی چھن چھو اینگ نے شی جن پھنگ کو اپنی نئی کتاب بھجوائی۔اُس وقت شی جن پھنگ اگرچہ صوبہ فو جیان کے قائم مقام گورنر تھے مگر پھر بھی انہوں نے فوری طور پر اپنی استانی کو جوابی خط بھیجا۔ ان کے ایک اور استاد چھن زونگ ہان کہتے ہیں: “ان برسوں کے دوران ، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ شی جن پھنگ کس عہدے پر فائز ہیں ، انہوں نے ہمیشہ اپنے اساتذہ کو یا د رکھا ہے۔”

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شی جن پھنگ نے حالیہ یوم اساتذہ کے موقع پر ملک کے اساتذہ پر زور دیا کہ وہ ایک مضبوط چین کی تعمیر اور قومی احیاء کو عملی جامہ پہنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کریں۔ نمایاں اساتذہ کے نمائندوں کو بھیجے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے سے ملک بھر کے اساتذہ نے قابل افراد کی ایک بڑی تعداد تیار کی ہے جو اہم ذمہ داریاں سنبھال سکتے ہیں۔شی جن پھنگ نے کہا کہ چین نے اپنی تدریسی برادری میں ماہرین تعلیم اور بہترین اساتذہ کے ایک گروپ کے ابھرنے کا مشاہدہ کیا ہے ، جنہوں نے ملک کے ماہرین تعلیم کے منفرد اقدار کا مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ملک بھر کے اساتذہ ماہرین تعلیم کی اقدار کو آگے بڑھائیں گے اور چین کو ایک مضبوط ملک بنانے اور قومی احیاء کو عملی جامہ پہنانے میں نیا اور بڑا کردار ادا کریں گے۔

اس ضمن میں چین کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ دیہی اسکولوں اور محدود وسائل کے حامل علاقوں میں کام کریں ۔ تارک وطن کارکنوں  کے بچوں کو فراہمی تعلیم کی خاطر  ایسی پالیسیاں اور اقدامات متعارف کروائے جائے رہے ہیں جس سے بچے اُن اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ، جہاں ان کے والدین کام کرتے ہیں۔اسی طرح یہ کوشش بھی کی جا رہی کہ یتیم اور دیکھ بھال سے محروم بچوں، دیہی علاقوں میں پیچھے رہ جانے والے بچوں اور مشکل حالات میں رہنے والے بچوں کے لئے بہتر تعلیمی خدمات فراہم کی جائیں  ،قومیتی آبادی والے علاقوں کے اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مزید وسائل استعمال کیے جائیں ۔ چین نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ اُس کی اپنی منفرد تاریخ، ثقافت اور قومی حالات ہیں اور چینی خصوصیات کی حامل عالمی معیار کی جامعات کی تعمیر میں دوسروں کی تقلید نہیں کی جا سکتی ہے ، چین کے نظام تعلیم کو ایک نئی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔اچھی بات یہ ہے کہ چین اپنی منفرد خصوصیات کی روشنی میں اعلیٰ معیار کی جامعات تعمیر کرنا چاہتا ہے تاکہ نوجوان چینی نسل اپنے اسلاف کی بلند اخلاقی قدروں سے وابستہ رہ سکے اور عہد حاضر کے جدید رجحانات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی قومی خصوصیات کو ہمیشہ یاد رکھ سکے۔

SAK
شاہد افراز خان، بیجنگ

شاہد افراز خان کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link