کتاب عزم اور خوابوں کا سفر. | تبصرہ: تسنیم جعفری

دو ماہ پہلے یہ کتاب میرے پاس ترتیب و تبصرے کے لیے آئی تھی اس لیے پبلش ہونے سے پہلے ہی میں اسکو تفصیل سے پڑھ چکی تھی لیکن میں اسے پڑھ کر اتنی متاثر ہوئی کہ خود اس پر تبصرہ نہیں لکھ سکی، میں چاہتی تھی کہ اس کا پیش لفظ کوئی عمدہ مصنف لکھے جو زندگی کے فلسفے کو سمجھتا ہو۔ یہ مصنف کی پہلی ہی تصنیف ہے لیکن بہت کمال کی ہے 325 صفحات کی یہ ایک منفرد خود نوشت ہے،انفرادیت کی وجہ مصنف کی اپنی کہانی اور شخصیت ہے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔


ایک ایماندار افیسر اور قابل احترام شخصیت جن کی اچھائی کی ان کے سبھی کولیگز اور ماتحت معترف ہیں۔
ایک سرکاری آفیسر سے اس طرح کی ادبی تحریر کی توقع نہیں کی جاسکتی ،لیکن راقم چونکہ نوعمری سے ہی ادبی تھے اس لیے ریٹائر ہوتے ہی ادب کی طرف لوٹ آئے کہ انھیں کتابوں سے عشق تھا۔ انہوں نے اپنی یہ داستان حیات قسط وار لکھ کر فیس بک پر شئیر کرنا شروع کی جس کو ان کے دوستوں نے بہت سراہا۔ دوستوں نے ہی مجبور کیا کہ اسے کتابی شکل میں لایا جائے۔


ایک بیورو کریٹ کی انوکھی آتم کتھا کے نام سے اس کتاب کا عمدہ پیش لفظ سندھ کے معروف ادیب و کالم نگار خالد بھٹی صاحب نے لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب مصنف کی زندگی کے سفر ،ان کے پختہ ارادوں اور خوابوں کی تکمیل کی کہانی ہے ، کتاب کا بنیادی مقصد مصنف کی ذاتی جد وجہد ،کامیابیوں اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات اور مشاہدات کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کرسکیں اور تحریک پا سکیں۔ ان کا اندرونی جذبہ انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ زندگی کے مشکل حالات کو وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھیں۔ کتاب کا مرکزی موضوع تبدیلی ہے ،نہ صرف معاشرتی بلکہ مصنف کی ذاتی زندگی میں بھی تبدیلی۔ یہ محض ایک شخص کی سرگزشت نہیں بلکہ یہ حیات کے گہرے سمندر میں غوطہ زنی کا ایسا دلکش بیانیہ ہےجو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ یہ کتاب ایک قلم کار کے شعور کا آئینہ ہے جس نے اپنی ذات کے نہا خانوں سے لے کر کائنات کے وسیع و عریض کینوس تک ہر نقش کو بڑی خوبصورتی اور ایمانداری سےتراشا ہے۔ یہ خود نوشت بذات خود ایک مکمل فلسفہ ہے۔ یہ عنوان ایک وعدہ ہے کہ کتاب ہمیں صرف ایک شخص کی کہانی نہیں سنائے گی بلکہ ہمیں دکھائے گی کہ کس طرح عزم کے پروں پر سوار ہوکرخوابوں کی وسعتوں کو چھوا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب صرف مصنف کے ذاتی تجربات کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ ہر انسان کے لا شعورمیں پنپنے والے اس پختہ ارادے اور نامکمل خوابوں کی داستان بن جاتی ہے جو اسے زندگی کی کٹھن راہوں پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔


مصنف نے اپنے مقدمے کو نہایت ادبی پیرائے میں ڈھالا ہے۔ زندگی کوایک رنگین پوشاک سے تشبیہ دیناجس کے تاروپود امید جدو جہد اور کامیابی سے بنے گئے ہوں،کمال فن کی مثال ہے۔یہ استعارہ قاری کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اسےاحساس دلاتاہے کہ وہ محض خشک حقائق نہیں بلکہ ایک جاندار،محسوس کی جانے والی حقیقت پڑھنے والا ہے۔


خالد بھٹی صاحب کا جاندار پیش لفظ بذات خود کتاب کی بہت عمدہ اور خوبصورت تفسیر ہے۔
مصنف نے گاوں میں گزاری زندگی کو اور اپنے بچپن کو جس طرح تنگ حالات میں گزارہ اسے بھی نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے اور اپنی نوعمری اور افسری کے بعد دوستوں کے ساتھ گزرے والی زندگی کو بھی پر مزاح انداز میں بیان کیا ہے۔


آخری باب میں انسان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اپنی ڈائری سے چند پیرے لکھتے ہیں،”میں بے خبر ہوں ،وقت کا بہاو جاری ہے ،ہر نیا لمحہ میری زندگی کو کھا رہا ہے،موت کسی انجانی جگہ میرے انتظار میں ہے، زندگی کا رستہ اچانک کہیں ختم ہوجائے گا ، مٹی اپنی اصل مٹی میں جا ملے گی”۔
زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کو پر لطف انداز میں بیان کی گئی اس خود نوشت کو پڑھ کر آپ بھی احساس اور امید کے سمندر میں غوطہ زن ہوجائیں گے۔


مصنف کی یہ پہلی ہی تصنیف متاثر کن ہے۔ اسے نوجوانوں کو بھی ضرور پڑھنا چاہئے جنہیں اس سے امید،حوصلہ اور خوابوں کو پورا کرنے کا ہنر ملے گا۔ اللہ تعالی ان کے قلم کو مزید تقویت بخشے۔ اس پہلی تصنیف کے ساتھ ہم مصنف کو ادبی دنیا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ 

تسنیم جعفری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link