بچوں کی دنیا۔ | تحریر: سیدہ ایف گیلانی
بچوں کی معصوم، سادہ اور تخیلاتی دنیا کو سنجیدگی اور محبت سے بیان کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کالم اس خیال کو اجاگر کرتا ہے کہ بچوں کی دنیا صرف کھیل تماشے یا ناسمجھی کا مظہر نہیں، بلکہ ایک ایسی خالص انسانی دنیا ہے جس میں سچائی، تخلیق اور جذبے کی پاکیزگی موجود ہے۔ اس تحریر میں زور دیا گیا ہے کہ بچوں کی باتوں، خوابوں اور خیالات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، کیونکہ یہی دنیا مستقبل کی بنیاد رکھتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی، والدین کی مصروفیات اور معاشرتی تبدیلیوں نے بچوں کی اصل دنیا کو متاثر کیا ہے۔ یہ کالم قاری کو دعوت دیتا ہے کہ نہ صرف بچوں کے ساتھ وقت گزارے بلکہ ان سے جینے کا ہنر بھی سیکھے۔
یہ تحریر بچوں کی تربیت، تعلیم اور جذباتی نشوونما کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور معاشرے کو ایک واضح پیغام دیتی ہے: اگر بچوں کی دنیا سلامت رہی تو انسانیت بھی سلامت رہے گی۔
بچوں کی دنیا بڑی نرالی، پیاری اور انمول ہوتی ہے۔ ان کے خواب رنگین، باتیں سادہ، اور دل شفاف آئینے کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ جو محسوس کرتے ہیں، وہی کہتے ہیں؛ ان کی مسکراہٹ میں خلوص ہوتا ہے اور آنکھوں میں ایک ان دیکھی امید جگمگاتی ہے۔
ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ بچے صرف کھیلنے، کھانے اور ہنسنے میں مصروف رہتے ہیں، اور دنیا کے بڑے مسائل سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچے اپنی ایک الگ اور مکمل دنیا رکھتے ہیں—ایسی دنیا جس میں رنگ، خیال، خواب اور سب سے بڑھ کر احساس موجود ہوتے ہیں۔
یہ دنیا ہماری دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں نہ نفرت ہے، نہ فریب، نہ سیاست۔ یہاں صرف محبت ہے، سچائی ہے، اور تخیل کی پرواز ہے۔ ایک بچہ جب مٹی کے کھلونوں سے کھیلتا ہے تو صرف کھیل نہیں رہا ہوتا، بلکہ اپنی ایک دنیا تشکیل دے رہا ہوتا ہے۔ جب وہ تصویریں بناتا ہے تو وہ اپنے دل کی زبان بولتا ہے۔
بچوں کا تخیل مستقبل کی بنیاد ہوتا ہے، کیونکہ تخیل ہی وہ چراغ ہے جس سے دنیا روشن ہوتی ہے۔ بچوں کا تخیل کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ جب ایک بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ “چاند پر جائے گا”، تو ہمیں اس کی بات کو ہنسی میں اڑانے کے بجائے سراہنا چاہیے۔ کیا معلوم وہی بچہ کل کا سائنسدان، خلانورد یا کسی نئی دنیا کا موجد ہو۔
ہمیں بچوں کو صرف الفاظ رٹوانے کے بجائے، انہیں سوچنا سکھانا ہے۔ سبق پڑھانے کے ساتھ ساتھ، زندگی جینے کا ہنر سکھانا ہے۔ ان کے سوالوں کو روایتی جوابات سے نہیں، محبت اور غور و فکر سے جواب دینا چاہیے۔ کیونکہ جب بچے سوال کرتے ہیں تو وہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان کے سوالوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہم انہیں خاموشی کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔
یہ صدی اگرچہ ٹیکنالوجی کی صدی ہے، لیکن ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا اثر بچوں کو کس طرف لے جا رہا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کی دنیا پر کئی دباؤ ہیں — موبائل، ٹیبلٹ، کارٹون چینلز اور سوشل میڈیا کے غیر فطری رنگ۔ یہ سب ان کی معصومیت کو آہستہ آہستہ نگل رہے ہیں۔ بچے کھیل کے میدانوں سے کٹ کر اسکرین کے قیدی بن گئے ہیں۔ کہانیاں سننے کے بجائے، یوٹیوب ویڈیوز میں گم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ایک وقت تھا جب دادا دادی کی باتوں میں بچوں کی شخصیت پروان چڑھتی تھی۔ آج وہ روایت ختم ہو رہی ہے۔ وہ کہانیاں، وہ “ایک تھا بادشاہ، ایک تھی رانی” اب صرف کتابوں تک محدود ہو گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی کہانیوں میں پوشیدہ حکمت آج بھی بچوں کی تربیت کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بچے صرف ہم سے سیکھتے ہیں، حالانکہ اگر غور کیا جائے تو بچے ہمیں بھی جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ وہ کھل کر روتے ہیں، دل سے ہنستے ہیں، اور ناراضگی کے بعد جلدی مان بھی جاتے ہیں۔ ان میں وہ سادگی ہے جو ہم کھو چکے ہیں، وہ گداز ہے جسے ہم نے خود غرضیوں میں دفن کر دیا ہے۔
آج کے شور، الجھنوں اور نفسیاتی دباؤ کے دور میں اگر کوئی دنیا ہمیں سکون دے سکتی ہے، تو وہ صرف بچوں کی دنیا ہے۔
آئیے! ہم اس دنیا کو محفوظ رکھیں۔
آئیے! ہم ان کے خوابوں کی حفاظت کریں۔
آئیے! ہم ان کی آنکھوں کے خوابوں میں روشنی بنیں۔
اور سب سے بڑھ کر، ان کے اندر کے انسان کو زندہ رکھیں۔
کیونکہ اگر بچوں کی دنیا سلامت رہی، تو انسانیت سلامت رہے گی۔
اور اگر وہ دنیا اجڑ گئی، تو ہماری دنیا صرف ایک بے سمت بھیڑ بن کر رہ جائے گی—ایک ایسی بھیڑ جسے اپنی منزل کا پتا نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر افضل رضوی کے درج ذیل الفاظ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں
“بچوں کی آنکھوں میں چھپا خوابوں کا جہاں، ہمیں وہ سچ دکھاتا ہے جسے ہم بڑے بھول چکے ہیں — ان کی دنیا فقط کھیل کی دنیا نہیں، بلکہ انسانیت کی آخری پناہ گاہ ہے۔”