مظہر اقبال مظہر کا سفرنامہ ” کاغذی سرحدوں کے آر پار “۔ | تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

حضرت انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ چھوٹے یا بڑے کسی سفر پر جائے تو اپنے انداز میں اس کے متعلق بتاتا ہے تاہم اس روداد سفر میں جو از قسم کاروبار یا میل ملاقات کے لئے کیا جائے اور ایک روداد سفر جو سفر صرف اور صرف سیروتفریح اور فطرت سے قریب ہونے کے لئے کیا جائے بہت فرق ہوتا ہے۔
کاغذی سرحدوں کے آرپار ایسا ہی سفر نامہ ہے جو صرف یورپ کے  ان معروف مقامات کو دیکھنے کے لئے کیا گیا جو تاریخ کے کسی نہ کسی حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔

یہ سفرنامہ پی ایف پی نے بہت اہتمام سے شائع کیا ہے عمدہ طباعت اور قدرے موٹے فونٹ کے ساتھ ہر مقام کی تصویری جھلکیوں کے ساتھ یورپ کے تاریخی مقامات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ بیش بہا خزانہ ہے

سفرنامہ کے آغاز ہی میں قاری کو معلوم ہوجاتا ہے کہ صاحب کتاب جن مقامات کو دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں ان کے متعلق مکمل ہوم ورک کر کے ہی گھر سے روانہ ہوئے ہیں۔

انگلینڈ سے بیرون ممالک بذریعہ ہوائی جہاز جانے کی بجائے مصنف نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کار پر جانے کا فیصلہ کیا اور ایک سیاح ہونے کے ناطے یہ بہترین فیصلہ تھا کیونکہ اپنی سواری ہونے کا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان کرسکتے ہیں اور اچھے سیاح کی یہ خوبی ہے کہ وہ وقت کی بچت کی بجائے اپنے شوق کی تکمیل چاہتا ہے یوں یہ ایک بہترین سفر نامہ ہے جو یورپ کے ممالک فرانس، اٹلی ، سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے بارے میں قارئین کی بہت عمدگی کے ساتھ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

سفرنامہ میں اچھے سفرنامہ کے تمام لوازمات موجود ہیں وہاں کی جتنی اہم مشہور عمارتیں ہیں ان کے تذکرے کے ساتھ ان کی تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اہمیت اور بطور سیاح احساسات بھی شامل ہیں۔
سفرنامہ میں جناب مظہر اقبال صاحب اپنی اہلیہ اور صاحبزادی کے ہمراہ فرانس سے سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن دورا سفر تمام جزئیات بتاتے ہوئے قاری کوبھی شامل کرتے ہیں۔

فرانس جائیں اور انقلاب فرانس کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے  فرانس کے شہر پیرس جائیں ایفل ٹاور کی زیارت نہ کریں یہ ایسا ہی جیسے کراچی جائیں اور سمندر دیکھے بغیر واپس آجائیں۔

ایفل ٹاور کی سیاحت پر مشتمل باب کا عنوان،، آئرن لیڈی کا جادو ،، ہے۔
نوٹرڈیم ، یہ وہ نام ہے جس نے ادب میں ایک الگ تشخص برقرار رکھا ہے، نوٹرڈیم کا کبڑا عاشق، بہت سوں نے پڑھ  رکھی ہوگی بہرحال ایفل ٹاور کی سیاحت کی تفصیلات کے بعد نوٹرڈیم  بذریعہ نائٹ کروز کی باری آتی ہے ۔پیرس میں مونٹمار کا عالیشان بیسیلیکا نوٹرڈیم کا کیتھیڈرل مونس پارک جسے اٹھارویں صدی میں انگریزی اور فرانسیسی طرز تعمیر کے ملاپ سے بنایاگیا کسی بھی سیاح کے لئےمسحور کن مقامات ہیں۔
پیرس جو تاریخ، ادب ، اور ثقافت کا روشن مینار ہے اپنے دامن میں بے شمار عجائبات رکھتا ہے جناب مظہر اقبال صاحب ان تمام عجائبات کے فن تعمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے خوبصورت ادبی بیانیے میں قاری کو یوں ساتھ رکھتے ہیں کہ کئی مرتبہ رک کر سوچنا پڑتا ہے کہ یہ تفریحی اور تاریخی مقامات  زیادہ مسحور کرتے ہیں یا ادب کی چاشنی میں لپٹے یہ جملے ۔۔اگر سچ پوچھیں تو مجھے بہت سے مقامات پر اتنی عمدہ اور شستہ نثر پر اچھے افسانہ نگار ہونے کا گمان ہوا۔

خاص طور پر ایشیئن آرٹس میوزیم کی روداد سناتے ہوئے ان کا قلم ایک قابل رشک نثر نگار کا قلم بن جاتا ہے

ان کی تحریر میں تشنگی نہیں ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان کے میزبان کی بیٹی ماریہ جو بطور گائڈ ان کے ہمراہ ہے وہ فرنچ ہسٹری کی طالبہ رہ چکی ہے اور ان کی صاحبزادی علینہ  تاریخ سے بے پناہ دلچسپی رکھتی ہیں یوں کھوجنے کے عمل میں پختہ کار کھوجی ساتھ ہوں تو آپ کو سفر میں تشنگی نہیں رہتی۔

پیرس کا دل یعنی شانزے لیزے کے بارے میں لکھتے ہیں

” دن کے کسی بھی حصے میں شانزے لیزے سے گزریں تو بلندوبالا عمارات سونے اورچاندی کے زیورات کی مانند چمک رہی ہوتی ہیں ۔رات کے وقت عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکنے والی روشنیاں سڑک پر سجی رنگین لائٹس کے ساتھ مل کر دلکش منظر پیش کرتی ہیں جو رنگ و نور کا جادوئی سیلاب بن کر پورے ماحول کو مسحورکن بنادیتا ہے۔۔شانزے لیزے کا سحر وہاں کی مختلف قسم کی سرگرمیوں سے ہے
میں نوٹ کر رہی تھی کہ ہر مقام کی سیاحت کا تزکرہ کرتے ہوئے مظہر اقبال صاحب نے لفظ جادوئی بہت کثرت سے استعمال کیا ہے خواہ وہ آرٹ گیلری ہو یا جان اوف آرک لیکن جس کا عنوان ہی ” مونٹ سینٹ مشیل کا جادوئی جزیرہ”  ہو اس کو دیکھتے ہوئے کیا احساسات ہوں گے ۔۔واللہ لطف آگیا بالکل اسی طرح ڈزنی لینڈ کی جادو نگری کی روداد بھی جادو ہی لگتی ہے اٹلی جاتے ہوئے فرانس کی سرحد پار کرنا انہیں کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سرحد یاد دلاتا ہے بلکہ ” کیلی کا معلق پل” کی روداد میں وہ خود لکھتے ہیں

اگر صرف قدرتی مناظر کی بات کی جائے تو فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے سیاحتی مقامات  کشمیر کے سیاحتی مقامات سے زیادہ مختلف نہیں تھے

نوٹرڈیم کیتھیڈرل کی سیاحت میں لکھتے ہیں یہ گوتھک فن تعمیر کا شاہکار ہے جو اپنی شان و شوکت کے ساتھ صدیوں کی کہانی سناٹا ہےیہ عمارت کسی راہب کی مانند لگتی ہےجو دنیا سے بے نیاز صرف عبادت میں مگن ہو کیتھیڈرل کی فضا میں گونجتی دعائیں اور قدموں کی مدہم چاپ ایک اداس سمفنی جیسی محسوس ہوتی ہےتاریخی مدفن کے قریب سے گزرتے ہوئے صدیوں کے غم اور ماتم کو محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے ہوا میں ماضی کے دردبکھرے ہوں پتھروں اور دیواروں میں سرگوشیوں کی عجیب دنیا بستی ہو نوٹرڈیم کی سنجیدگی اور خوبصورتی منفرد تجربہ ہے جیسے خاموش گیت جو دل کی گہرائیوں کو چھو جائے۔
یہ کتاب کے پہلے ستر اسی صفحات کے مطالعہ سے نوٹس لئے ہیں جبکہ شیٹیلی کے محلات وہاں کا ہارس میوزیم،ورسائی کا پرفتن قلعہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

کتاب کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے سفرنامہ نویس لکھتے ہیں
چھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم اٹلی سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقع مونٹ بلانک پہاڑ کی سرنگ کے دہانے پر پہنچ گئے یہ انوکھی سرحد ہےجس کے اندر داخل ہوتے ہی دونوں ممالک کی سرحدیں دھیرے دھیرے مل کر جدا ہو جاتی ہیں یہ تبدیلی بغیر کسی شور یا ہنگامے کے ہوتی یے اچانک میرا ذہن ہزاروں میل دور کشمیر میں میری جنم بھومی راولا کوٹ کےقریب تیتری نوٹ  بارڈر کراسنگ پوائنٹ کی طرف چلا گیا میں سوچنے لگا ایک طرف یورپی سرحدیں ہیں جہاں ایک ملک سے دوسرے ملک جانا اتنا آسان ہے نہ خاردار تارنہ توپوں کا شورنہ کوئی فوجی نہ کسی چوکی پر پابندیاں دوسری طرف وہ سرحد ہے جو کشمیر کی زمین پر نہیں بلکہ کشمیریوں کے دلوں پر کھینچی گئی ہے ۔
ہم کشمیری ان یورپی ملکوں جیسی قسمت لے کر کیوں نہیں پیدا ہوئے؟
کہنے کو یہ ایک بے ضرر سا سوال ہے لیکن حقیقت  بہت تلخ اور اذیت پر مبنی جواب پر مشتمل ہے۔
سفرنامہ بہت طویل نہیں ہے لیکن یورپی ممالک میں جانے والوں کے لئے ایک رہنما ہے۔

میں اتنے عمدہ سفرنامہ کی اشاعت پر جناب مظہر اقبال صاحب اور پریس فار پیس پبلیکیشنز کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link