AB

قدس کی فتح میں خون کا راز۔ | تحریر: عارف بلتستانی

انسان فنا کےلئے نہیں بقا کےلیئے پیدا کیا گیا ہے۔ بقا کےلئے آزادی شرط ہے۔ آزادی و حریت خون کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی، خون سے وابستہ ہے۔ خونِ خدا کے بغیر تاریخ مردہ جسم کی مانند ہے۔ نوک نیزے پر سید الشہدا  علیہ السلام کا سر مبارک، خدا اور عاشقوں کے درمیان ایک راز ہے۔ اب یہ راز فاش ہوا ہے، لیکن شہدا کے علاؤہ کوئی اس راز کو نہیں سمجھ سکتا۔

زندگی کی رگوں میں گردشِ خون شیرین ہے جب کہ معشوق کے قدموں میں بہا دینا اس سے بھی زیادہ شیرین ہے۔ اس لائق وہی لوگ ہیں جن کے دل عشق سے اس قدر لبریز ہیں کہ اس میں موت کے خوف کو ٹھہرنے کےلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی لوگ ابدی ہیں۔ ان لوگوں کا اشارہ، باتیں مقاومت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ جیسے شہید سید حسن نصر اللہ ، شہید سلیمانی ، شہید سنوار یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے اس راز خون کو فاش کر کے قدس کی آزادی کی بنیاد کو مزید مضبوط کر کے امت کو ایک  عصر جدید میں داخل کیا ہے۔ یہ عصر،  قدس کی آزادی کا عصر ہوگا۔

اس عصر کا آغاز، سردارانِ اسلام کے سرخ لہو سے ہوا ہے۔ جو بارش کے قطروں کی طرح بےحس اور بے شعور مسلمانوں کے اندر عشق و بصیرت ، غیرت و حمیت اور حرّیت   کا طوفان بپا کرے گا۔ شہید سید مرتضی آوینی اپنی کتاب “گنجینہ آسمانی” اور “نسیم حیات” میں لکھتے ہیں کہ *”زندگی بخش ہوائیں چل رہی ہیں، جو اپنے ساتھ بارش کی خوشخ بری لے کر آتی ہے۔  ہوا سمندر کے دور دراز حصوں سے پانی کے قطروں کو جمع کرتی ہے اور لہریں اٹھاتی ہے۔  سمندر کی ہنگامہ خیزی اب قریب آنے والے طوفان کی خبر دے رہی ہے۔  وہ طوفان جو دنیا میں جہالت، ظلم اور استکبار کو انقلاب میں بدل دے گا اور ظالموں اور مستکبرین کو جو ناحق حکومت کر چکے ہیں، زمین بوس کرے گا اور مظلوموں اور مستضعفین کو زمین کا وارث بنائے گا۔”.

شہید آوینی مزید لکھتے ہیں کہ “قدس اُس جراحت کا مظہر ہے جس نے اُمتِ اسلامی کے دل پر وار کیا ہے اور یہ زخم خون کے علاوہ کسی چیز سے دھویا نہیں جا سکتا۔ کاہلی، تن آسانی اور اس پست دُنیا سے دل لگانے والوں کا راہِ قدس سے کوئی لینا دینا نہیں۔راہِ قدس، ایک دلیر جنگ جو کا راستہ ہے اور دلیر جنگ جو ہی کربلائی ہے اور کربلائی میدانِ عشق کا مرکزی کردار  ہے ؛ وہ سختیوں، مشکلات، سر کٹانے اور جان دینے سے نہیں ڈرتا! *آج میں قدس کی آزادی کے آغاز اور قرآن کے ناقابلِ تسخیر (تغییر) وعدے کی تکمیل کو محاذوں اور محاذوں کے پیچھے  دیکھ رہا ہوں۔ سب حق  بات ہی کہتے ہیں کہ *قدس کا راستہ کربلا سے ہے۔

کربلا کا راستہ آزادی کا راستہ ہے۔ حریت کا راستہ ہے۔ حریت اور آزادی خون کا طالب ہے۔ خون دیئے  بغیر قومیں نہ فتح پاتی ہیں اور نہ غلامی سے نکل سکتی ہیں۔ غلامی سے آزادی تک کے درمیان فقط خون کا فاصلہ ہے۔ مستضعفین اگر علمی، فکری، دفاعی اور معاشی میدان میں عَلَم اٹھائیں اور اس راستے میں خون بہا دیں تو ظالمین پر فتح یقینی ہے۔

شہید آوینی اپنی کتاب “نسیم حیات” میں لکھتے ہیں کہ اگر مستضعفین (ایمانی، فکری، علمی، دفاعی اور معیشتی) طور پر مسلح ہو جائیں اور جو کچھ ان کے بس میں ہے اسے صیہونیت اور دوسرے عالمی آقاؤں کے خلاف جنگ میں بروئے کار لائیں، تو دنیا کا نظام یکسر پلٹ جائے گا اور صالحین کی حاکمیت اور مستضعفین کی وراثت کا زمانہ آن پہنچے گا۔ شہید آوینی اپنی کتاب “نسیم حیات” میں اس کی شرط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ *”اگر علما اپنی ازلی عہد و پیمان پر قائم اور وفادار رہیں، تو کوئی بھی ظالم حکومت نہیں کرے گا اور تمام روئے زمین پر عدل و انصاف قائم ہو جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link