بُلوم ٹیکسانومی کی تفصیلی وضاحت۔| تحریر: اقبال حسین اقبال
بنجامن سیموئل بلوم امریکا کے ایک مشہور و معروف ماہر تعلیم تھے۔انھوں نے 1956ء میں انسانی لرننگ کے تین ایریاز وضع کیے ہیں۔جنھیں Bloom’s Taxonomy یعنی بلوم کی درجہ بندی کا نام دیا گیا ہے۔یہ بنیادی طور پر SLO’s Based Learning کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بلوم ٹیکسانومی تین بڑے ایریاز میں منقسم ہے۔بنجامن بلوم نے Cognitive Domain کو ڈیولپ کیا ہے۔بلوم ٹیکسانومی کا دوسرا ایریا تاثراتی ہے۔جسے Affective Domain کہا گیا ہے۔اس ایریے کو 1964ء میں David Krathwohl نامی ماہر تعلیم نے ڈیولپ کیا ہے۔اسی طرح Psychomotor Domain کو 1972ء میں Elizabeth Jane Simpson نام کی ایک خاتون نے بنایا ہے مگر یہ تھیوری بلوم ٹیکسانومی کے نام سے منسوب ہو کر معروف ہو گئی ہے۔1956ء سے قبل تعلیم کے واضح مقاصد تعین نہیں تھے کہ تعلیم سے ایک بچہ کے اندر کون سی تبدیلیاں آنی چاہیے۔مگر بلوم ٹیکسانومی یہ بتاتی ہے کہ بچے کی تعلم ان تین ایریاز کے اندر ہونی چاہیے۔یاد رہے بلوم ٹیکسانومی کو ڈیولپ کرنے میں آٹھ آٹھ سال کا طویل عرصہ لگا ہے۔اس تھیوری میں بتایا گیا ہے کہ جب ایک طالب علم اسکول کی چار دیواری میں داخل ہوتا ہے تو اسکول سسٹم اسے ایک ماحول فراہم کرتا ہے اور بچے کی لرننگ بلوم ٹیکسانومی کے مطابق ان تین ایریاز میں ہوتی ہے۔ان میں سرفہرست وقوفی ہے جسے Cognitive Domain کہا جاتا ہے۔وقوف عقل کو کہا جاتا ہے۔یعنی بچہ اپنی عقل، ذہانت اور حافظے کے ذریعے سے جو کچھ سیکھتا ہے یا حاصل کرتا ہے’ اسے Cognitive Domain کا نام دیا گیا ہے۔اس ایریے کے مزید چھے سب پارٹس ہیں۔جس میں پہلا درجہ Knowledge یا علم ہے۔اس لیول میں بچہ بغیر سمجھے صرف چیزوں کے نام یاد کر لیتا ہے۔مثلاً بچہ جب پہلی بار کلاس میں جاتا ہے تو ٹیچر نے اسے کمپیوٹر پڑھایا۔بچہ اسے صرف یاد کر لیتا ہے اس کے علاوہ کمپیوٹر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔دوسرے نمبر پر Comprehension ہے۔اس مرحلے میں بچے کی لرننگ اور سمجھ دونوں بڑھ جاتے ہیں۔یعنی وہ کمپیوٹر کے متعلق جانتا ہے کہ اس میں کمپوزنگ کی جاتی ہے۔ویڈیوز دیکھے جاتے ہیں۔مختلف گیمز کھیل سکتے ہیں۔وہ کمپیوٹر کی جسامت اور مختلف پارٹس کے بارے میں جانتا ہے۔تیسرے درجے میں Application ہے۔اس لیول میں بچے نے جو کچھ سیکھا ہے اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔مثلاً جب بچے کو ضرورت پڑے تو کمپیوٹر کو آن آف کرے گا۔خود کمپیوٹر کا استعمال کرے گا۔ٹائپنگ کرے گا۔کاپی پیسٹ کرے گا۔چوتھی سطح Analysis کہلاتا ہے۔چیزوں کو سمجھنے کے لیے مختلف پارٹس میں تقسیم کر کے ان کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔اوپر والی مثال کو لے لیں تو بچہ مختلف کمپیوٹرز کے بارے میں تجزیہ پیش کرتا ہے۔وہ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں موازنہ کرائے گا۔کمپیوٹر کے مختلف اقسام اور ان کے استعمالات کے بارے میں جان چکا ہوتا ہے۔پانچواں لیول Synthesis ہے۔اس کا مطلب ہے چیزوں کو آپس میں جوڑنا۔یعنی انسان اپنی تمام تر معلومات کے ذریعے نئی کوئی چیز تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہم کمپیوٹر ہی کی مثال لیں گے کہ بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی سابقہ علم کو بروئے کار لاتے ہوئے کمپیوٹر کے اندر کوئی نئی تبدیلی کرتا ہے۔نیا فیچر متعارف کرا کے کمپیوٹر کی دنیا میں اضافہ کر سکتا ہے۔چھٹا اور آخری لیول Evaluation ہے۔اب بچہ اس لیول پر مختلف کمپیوٹرز کے موازنے کے بعد یہ بتاتا سکتا ہے کہ فلاں کمپیوٹر کے مقابلے میں فلاں کمپیوٹر زیادہ بہتر ہے۔اس میں دوسرے کمپیوٹرز کے نسبت فیچر اس قدر زیادہ ہیں۔اس کی Ram / Rom یہ ہے۔Cognitive Domain میں شروع کے تین لیول کو Lower Level جبکہ اگلے تین لیولز کو Higher Level کہا گیا ہے۔2001ء میں بلوم ٹیکسانومی کی ترتیب میں ردوبدل کر کے Noun فارم سے Verb فارم میں تبدیل کیا گیا ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ہمارے ملک کے اکثر تعلیمی اداروں میں بلوم کے Lower Levels کے اوپر زیادہ توجہ دیا جاتا ہے۔اساتذہ اور والدین اپنی تمام تر صلاحتیں چیزیں رٹوانے میں صرف کر دیتے ہیں۔طلبہ اردو میں نوٹس، انگلش میں زمانے، مطالعہ پاکستان میں تاریخ پیدائش، سائنس اور ریاضی کے فارمولے بنا سمجھے حافظے میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔امتحانی پرچہ جات بھی اسی ایرے کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔اس عمل سے بچوں کی معلومات میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر وہ تحقیقی میدان میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا پاتے ہیں۔یہ عمل زیادہ فائدہ مند اور دیرپا نہیں ہوتا ہے۔
بلوم ٹیکسانومی کا دوسرا ایریا تاثراتی ہے۔جسے Affective Domain کہا گیا ہے۔یہ اہم ترین ایریاز میں شمار ہوتا ہے۔اس میں ایک طالب علم اپنے کردار، اخلاق اور جذبات کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس میں بچہ منفی یا مثبت عمل شو کرتا ہے۔اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو اخلاقیات، آداب و اطوار اور دوسرے طلبہ کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ سکھائیں مگر تعلیمی اداروں میں اسے عوماً فراموش کیا جاتا ہے اور اعلیٰ نمبرات کے حصول کے لئے دماغی ورزش یعنی رٹا لگانے پر زور دیا جاتا ہے۔اگر ایفکٹیو ڈومین پر توجہ دیا جائے تو ایک طالب علم مستقبل میں مفید شہری بن سکتا ہے۔اس کے مزید پانچ سب پارٹس ہیں جن کا سرسری طور پر جائرہ لیں گے اور آسان مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ایفکٹیو ڈومین کا پہلا درجہ Receiving کہلاتا ہے۔بعض کتابوں میں Attending بھی لکھا گیا ہے۔دونوں ایک ہی مفہوم ادا کرتے ہیں۔فرض کریں ایک بچہ کلاس میں بیٹھ کر پڑھنا نہیں چاہتا ہے۔کلاس میں تھکا تھکا رہتا ہے۔بوریت محسوس کرتا ہے مگر آپ نے مختلف مثالوں اور نصیحتوں سے اس کو پڑھائی کی جانب راغب کیا، اس کو متوجہ کیا، دلچسپی پیدا کی اور وہ بچہ پڑھنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے یہ ریسیونگ میں آتا ہے۔
دوسرا درجہ Responding ہے۔بچہ آمادہ ہونے کے بعد جو کچھ اس نے پڑھا ہوتا ہے اس کی رسپونڈنگ کرتا ہے یعنی جواب دیتا ہے وہ اپنی نالج کو آگے شیئر کرنے اور سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔دورانِ پڑھائی یا پڑھائی کے بعد استاد اگر بچے سے کوئی سوال پوچھے تو وہ جواب دے گا۔
تیسرے نمبر پر Valuing ہے۔پھر اس بچے نے جو کچھ پڑھا ہے اس کو اہمیت دینے لگتا ہے۔اس چیز کی قدر کرتا ہے اور کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے کیا بھلا ہے اور کیا برا ہے اس میں تمیز کرنا اس کو آجاتا ہے۔
چوتھا نکتہ Organization ہے۔اس میں بچہ اپنے نالج کو منظم کرتا ہے۔اپنے اندر میں نظم پیدا کرتا ہے۔بچے نے جو کچھ سیکھا ہے اسے اپلائی کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی میری زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے اپنی نالج کو جو اس نے حاصل کیا ہے عمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس ایریے کا پانچواں پارٹ Characterizing کہلاتا ہے۔جو کچھ معلومات و نظریات اس نے حاصل کیا تھا وہ طالب علم کی صلاحیت اور مہارت بن جاتی ہے۔بچے کی قابلیت بڑھ جاتی ہے۔جس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہتا۔
آج آپ دیکھ سکتے ہیں لوگ پڑھتے بھی ہیں۔مقابلے کے امتحانات پاس کر کے محکموں میں آفیسر بھی لگ جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے کرپشن بھی کرتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ تعلیمی ادروں میں صرف چند فارمولے یاد کرا کے نوکر بننے کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ اخلاقیات کردار، سماجی رواداری کو یکسر فراموش کیا جاتا ہے۔
بلوم ٹیکسانومی کا تیسرا اور آخری ڈومین نفسی حرکی ہے۔یہ انسان کے فن، مہارت یا ہنر سے متعلق ہے۔انگریزی میں اس اہم ڈومین کو Psychomotor Domain کا نام دیا گیا ہے۔اس میں ایک بچے کی مہارتیں بڑھ جاتیں ہیں۔جیسے وہ کمپیوٹر کا استعمال کرنا، بہترین پینٹگ کرنا، اچھی تقریر کرنا،اچھا کھیلنا جیسی مہارتیں اپنے اندر لانے کی کوشش کرتا ہے۔اس ڈومین کے بھی سات پارٹس ہیں۔جس کا انتہائی اختصار سے ذکر کیا جاتا ہے۔اس ایریے کا سب سے پہلا درجہ Perception کہلاتا ہے۔ہم ایک ہی مثال کو لے کر ان سات ایریاز کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔مثال کے طور پر ایک لڑکا اپنے والد صاحب کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھتا ہے۔وہ لڑکا بھی سوچتا ہے کہ کیا میں موٹر سائیکل چلا سکوں گا یا نہیں۔وہ وہم و گمان میں گرفتار ہوتا ہے۔وہ ابھی فیصلہ نہیں کرتا ہے بلکہ کشمکش کی کیفیت سے گرزتا ہے۔دوسرے درجے پر Set ہے یہاں وہ کشمکش کی دنیا سے باہر نکل کر فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں موٹر سائیکل چلا سکتا ہوں لہٰذا مجھے موٹر سائیکل چلانا چاہیے۔اس لیے میں کوشش کروں گا۔یہاں وہ اپنا گول سیٹ کر لیتا ہے۔اس ایریے میں فیصلے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔تیسرا درجہ Guided Response اب اپنا مقصد کو پورا کرنے یا عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے کسی رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔جو اس فیلڈ میں بہت زیادہ مہارت رکھتا ہو۔وہ متعلقہ فرد سے اس کام کے حوالے سے گائیڈنس لینا شروع کرتا ہے۔تاکہ وہ گائیڈ کی رہنمائی میں اپنے کام کو بہتر انداز میں سیکھ سکے۔یعنی بچہ اپنے والد کو ایک رہنما کے طور پر لیتا ہے اور موٹر سائیکل چلانا شروع کرتا ہے۔چوتھے درجے کو Mechanism کہتے ہیں۔اس میں کام شروع کرنے کے بعد اور کسی ماہر سے مدد لینے کے بعد بھی اس شخص کا اپنا انداز ہو گا۔وہ اپنے رہنما کا ہوبہو نقل نہیں اتارتا ہے بلکہ اس کی موٹر سائیکل چلانے کی اپنی سٹائل ہو گی۔اپنا انداز ہو گا۔یعنی بچے نے موٹر سائیکل چلانا تو اپنے والد سے سیکھ لی ہے مگر چلانے کا انداز یا سٹائل بچے کا اپنا ہو گا۔پانچواں Complex Over Response ہے۔ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ موٹر سائیکل چلانے میں اتنا مہارت حاصل کر لیتا ہے کہ وہ اس کی شناخت اور پہچان بن جاتی ہے۔لوگ اس کو اسی کام کی وجہ سے پہچان لیتے ہیں۔چھٹا لیول Adoption ہے۔اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈالنا۔مثلاً آپ پہلے سے جس ماحول میں رہ رہے ہیں اگر آپ کو دوسرا ماحول میسر آئے تو خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنا ہے اور نئی کوئی سچویشن کو قبول کرنا ہے۔مثال کے طور پر اگر شروع میں بچہ اپنے محلے میں کسی پکی سڑک پر موٹر سائیکل چلاتا تھا اگر اسے کسی کچی ناہموار مقام پر چلانا پڑے تو وہ کسی خوف اور پریشانی کے بغیر آسانی سے چلائے گا۔ساتواں سطح Origination ہے۔انسان اس سٹیج پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے ایک رول ماڈل اور سمبل بن جاتا ہے۔لوگ اس کے سٹائل کو فالو کرنا شروع کرتے ہیں۔مثلاً ون ویلنگ کرتا ہے۔بائیک کو اٹکتے مٹکتے چلاتا ہے اور وہ ایک مستند نام بن جاتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ماہرینِ تعلیم کی ایک اور ٹیم نے 1975ء میں Psychomotor Domain کے پانچ درجات کی نئی ترتیب کے ساتھ ایک الگ ماڈل بھی پیش کیا ہے۔اس کا مختصراً ذکر کرتے ہیں تاکہ بلوم ٹیکسانومی کے حوالے سے کسی قسم کی ابہام اور کمی باقی نہ رہے۔
اس میں سب سے پہلی سطح Imitation ہے۔ایک سادہ سی مثال سے سمجھتے ہیں۔فرض کریں آپ کو کمپیوٹر میں ٹائپنگ کرنی نہیں آتی ہے۔آپ کسی ماہر کے پاس ٹائپنگ سیکھنے جاتے ہیں۔وہ سب سے پہلے انپیج یا ورلڈ فائل اوپن کر کے ٹائپنگ کرنا شروع کرتا ہے اور آپ قریب بیٹھ کر اس کی ٹائپنگ کے انداز کو دیکھ لیتے ہیں۔مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ سامنے والا بندہ ٹائپنگ کیسے کر لیتا ہے۔یعنی کوئی کام خود کرنے سے پہلے کسی دوسرے بندے کو کرتا ہوا دیکھنا اور مشاہدہ کرنا Imitation کہلاتا ہے۔
دوسری سطح Manipulation ہے۔اس لیول میں بندہ مشاہدے کے بعد خود کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اوپر والی مثال کے مطابق وہ شخص خود ٹائپنگ کرے گا۔اس میں یقینی بات ہے کہ غلطیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔زیادہ غلطیوں کے ساتھ ٹائپنگ کرے گا۔الفاظ کو درست طریقے سے لکھنے میں وقت زیادہ لگے گا۔
تیسری سطح Precision ہے۔اس سطح میں بندے کی مہارت بڑھ جاتی ہے۔وہ بہت ہی کم غلطیوں اور مہارت کے ساتھ ٹائپنگ کرنا جان چکا ہوتا ہے۔
چوتھی سطح Articulation ہے۔اس سطح میں بندہ پوری مہارت کے ساتھ کام سیکھ چکا ہوتا ہے۔صلاحیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اس میں غلطیوں کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔زیادہ مہارت کے ساتھ ٹائپنگ کرنا جان چکا ہوتا ہے۔
پانچویں سطح Naturalization ہے۔اس سطح میں بندہ مہارت کے اعلیٰ درجے پر ہوتا ہے۔وہ اس کی فطری صلاحیت بن جاتی ہے۔اتنا ماہر ہو جاتا ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے میں وقت لگانےکی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ کون سا کام کب اور کیسے کرنا ہے؟اگر ٹائپنگ کی ہی مثال لے لیں تو ٹائپنگ کرتے وقت وہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ الفاظ کی فونٹ سائز کیسے بڑھانی ہے۔بولڈ کہاں سے کرنا ہے؟پرنٹ کرنے کے لیے کون سا بٹن دبانا ہے۔بس وہ فی البدیہ کام کرتا ہے۔
آج کل بلوم ٹیکسانومی کے لیے تھری ایچ ماڈلز لرننگ (3H) کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے جو بالترتیب Head, Heart اور Hand کا مفہوم ادا کرتے ہیں۔ یعنی انسانی عقل و شعور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا تعلق Head سے ہے۔احساسات اور جذبات کا تعلق انسان کے Heart سے ہے۔اسی طرح جسمانی حرکات و سکنات، کام کاج اور مہارتوں کا تعلق Hand سے ہے۔انھیں آسان انداز میں یاد کرنے کے لیے لوگ مختلف طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔جیسے Cognitive، Affective اور Psychomotor کے شروع کے ایک ایک لیٹر کو اٹھائیں تو CAP “کیپ” بنتا ہے۔بلوم ٹیکسانومی کو یاد رکھنے کے متعلق ایک بندہ یہ جملہ کہتا تھا “دماغ دل کے ہاتھ میں ہے”۔Cognitive کے لیولز کو ایک ساتھ ملا کر KCAASE “کاسی یا قصاص”، Affective کو ARVOC “اروک” اور اسی طرح Psychomotor کو PSGMCAO یعنی “پہلے سیکورٹی گارڈ مکاؤ” کے اصطلاحات استعمال کیے جا سکتے ہیں۔