NH

جامعۃ الرضا اسلام آباد کے طلبا اور یومِ اقبال۔ | تحریر : ڈاکٹر نذر حافی

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ یہ مصرعہ آنلائن  مجلسِ مذاکرہ کا عنوان تھا۔ محترم منظور حیدری نے اس پروگرام کو مرتب کیا ۔نظامت کے فرائض مرتضی علی حیدری انجام دے رہے تھے۔ اس آنلائن مجلسِ مذاکرہ کے پہلے مقالہ خوان ، جامعۃ الرضا اسلام آباد کے سابق طالب علم اور جامعۃ المصطفی ؑ قم کے برجستہ محقق محترم  منظوم ولایتی تھے۔ انہوں نے اپنے مقالے میں انسان کے افکار و  نظریات پر ماحول اور حالات کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے علامہ اقبال کی زندگی کے تین اداوار پرو روشنی ڈالی۔ اس کے بعد علامہ کی دو نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے مولانا حالی کی مسدس مدوجزر اسلام کی طرف بھی شرکائے مذاکرہ کو متوجہ کیا۔ انہوں نے جہاں اقبال کے فنّی محاسن اور ہنری پہلو     پر مختصراً گفتگو کی وہیں اقبال کے اشعار کے بین السطورمفاہیم کے حوالے سے خصوصی نکات بیان کئے۔  اقبالیات کے  متعدد زاویے  وا   کرنے کے بعد انہوں نے پاکستانی معاشرے میں اقبالیات کے متروک ہونے پر اپنے تحفظات اور  خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مجلسِ مذاکرہ کے عنوان ” کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟” کا اپنے مقالے سے ربط بیا ن کیا اور  علامہ اقبال کی زبانی راہِ حل یہ بیان کیا کہ

کی محمد ؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں  چیز ہے  کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ان کے بعد جامعۃ الرضا اسلام  آباد کے دوسرے متعلم محترم عقیل رضا نے ” علامہ اقبال کی انفرادیت” کے حوالے سے اپنےمطالب بیان کئے۔ انہوں نے  دانشوروں کے درمیان علامہ اقبال کی انفرادیت کو بیان کرتے ہوئے سید جمال الدین افغانی اور ڈاکٹر علی شریعتی سے علامہ اقبال کے اشتراک اور انفرادی پہلو کا بھی ذکر کیا۔ اُن کی گفتگو  کا ایک اہم زاویہ علامہ اقبال کا احساسِ زیاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ  جس طرح مغرب کے کتب خانوں  میں مسلمان اسلاف کی کتابوں کو دیکھ کر  اقبال کا دل جلتا تھا، اُسی طرح آج ہمارے اپنے مشرق میں بھی     کتب خانوں  کو ویران  دیکھ کر  اقبال  کی روح تڑپتی ہے۔ ملک میں  نوجوانوں کو کتابوں کی دنیا کی طرف لانے، انہیں مطالعہ کرنے کی روشیں سکھانے اور مطالعے کو اپنے اور معاشرے  کیلئے مفید بنانے کیلئے کوئی منظم اور منسجم نظام نہیں۔  ان کی تحقیق کے مطابق کتاب اور مطالعے سے دوری   کے باعث ہمارے ہاں رٹہ لگانے کا رجحان بڑھ گیا ہے جس سے  ایک قابلِ مشاہدہ علمی بحران   نے جنم لیا ہے۔ اس پر انہوں نے     اپنی گفتگو کو عنوان ِ مجلس مذاکرہ ” کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ ” کے ساتھ بھی گِرہ لگائی۔

ایک گھنٹے پر محیط اس مجلسِ مذاکرہ سے راقم الحروف کو بھی  آنلائن استفادے کا موقع ملا۔مجلسِ مذاکرہ  کے اختتامی مراحل میں  منتظم محترم مرتضی علی حیدری نے مجھے بھی اپنی معروضات کو پیش کرنے کی فرصت مہیّا کی۔ میں نے ان لمحات کو غنیمت جانتے  ہوئے  مجلسِ مذاکرہ کے عنوان ” کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ ” کے مطابق اقبالیات کے ایک فراموش شدہ  پہلو کو  سوچنے اور پرکھنے کیلئے معزز شرکاء کے سامنے رکھا۔

بلاشبہ پاکستان میں علامہ اقبال کے اشعار کو کسی حد تک میڈیا اور کتابوں میں تو جگہ دی جاتی ہے لیکن اقبال نے انسانی فکر کو بیدار کرنےاور    ملّت کی  تعلیم و تربیت   کیلئے جو  اہداف بیان کئے ہیں اور جو روشیں اختیار کی ہیں، انہیں یکسر انداز کر دیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے تعلیمی نظریات پر جب بھی بات ہوتی ہے تو  علامہ کے چند اشعار کو جوڑ توڑ کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ علامہ اقبال کے تعلیمی نظریات ہیں جبکہ وہ علامہ کے نظریات کے بجائے کسی بھی شخص کا اقبالیات کی نسبت اُس   کا اپنا  ذاتی فہم ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی  معیارات کے مطابق اقبالیات سےتعلیم و تربیت کے اہداف، اصول اورروشیں  اخذ کی جائیں۔علامہ اقبال کا ہُنر اُن کی شاعری نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کی بیداری اور تربیّت ہے۔ شاعری تو اقبال کیلئے اظہار مطالب کا ایک وسیلہ ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ توجہ اقبال کی شاعری کو بیان کرنے اور اُس کی تشریح پر مرکوز ہے جبکہ  تعلیم و تربیّت کے میدان میں تعلیمی منبع کے طور پر ہم نے اقبالیات کو قبول ہی نہیں کیا۔ بحیثیتِ پاکستانی اقبالیات  میں سے کچھ نظمیں اور اشعار کو ہمارے نصابِ تعلیم  میں شامل کر لینے اور یومِ اقبال منالینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی اوراپنے بچوں کی تربیّت علامہ اقبال کے فکری خطوط پر کر رہے ہیں۔  علامہ اقبال کے فکری خطوط پر یہ تربیّت اس وقت ممکن ہو گی جب ہم اقبالیات کو اپنے نصابی تعلیم کے بنیادی منابع میں شامل کریں گے اور اپنے  تعلیمی اہداف، قواعد اور روشوں کو اقبالیات سے اخذ کریں گے۔

اس موقع پر جامعۃ الرضا اسلام آباد کے  مدیر محترم مولانا حسنین عباس گردیزی صاحب اور ان کے ادارے کے طلبا یقیناً مبارکباد اور شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دینی مدارس کے اندر  یومِ اقبال کی مناسبت سے تحقیق کرنے،     مقالہ خوانی، اقبالیات پر دوسروں کو   سننے، اورعلامہ اقبال سے متعلق اپنے فہم و     ادراک کو  بیان کرنے کا دروازہ کھولا۔   امید ہے کہ پاکستان کے دیگر دینی مدارس بھی اقبالیات کے حوالے سے ایسی سرگرمیوں پرتوجہ دیں گے۔ایسی سرگرمیوں     پر ضرور توجہ دیں البتہ یہ یاد رکھیں کہ ان سرگرمیویں سے ہم علامہ اقبال کو زندہ نہیں کریں گے بلکہ اقبالیات کے وسیلے سے ہم بطورِ قوم زندہ ہونگے۔

آئیے اقبال کے ان چند اشعار کے ساتھ خدا حافظی کرتے ہیں:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتیں نہیں قومیں

جو ضرب کلیمیؑ نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

نذر حافی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link