نظام تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں انجام پانے والے علمی کام پر ایک نظر۔ | تحریر: نذر حافی
پاکستان کا نیشنل کریکلم فریم ورک ایک انتهائی بنیادی اور اساسی نوعیت کی دستاویز هے۔ اس سے پهلے پاکستان کے پاس کوئی قومی نصابی فریم ورک (NCF) نهیں تھا۔ زیاده ترممالک کے پاس ایسے فریم ورک هوتے هیں اور وه ان کی روشنی میں اپنا نصاب تیار کرتے هیں۔ دنیا کی تمام وفاقی ڈھانچه رکھنے والی ریاستوں کے پاس ایک مشترکه فریم ورک اور بنیادی نصاب موجود هے۔
اس سے کسی کو انکار نهیں که پاکستان میں بغیر کسی مشترکه فریم ورک کے نظامِ تعلیم کے حوالے سے نظریاتی طور پر اور عملی طور پر بهت زیاده کام هو چکا هے۔ یه بھی مخفی نه رهے که پاکستان کے نظامِ تعلیم کو اسلامی بنانے کے ساتھ ساتھ جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور ماڈرن تعلیمی نظریات سے بھی هم آهنگ کرنے کی بهت کوششیں هو چکی هیں، اس کے باوجود یه حقیقت اظهر من الشّمس هے که پاکستان کا نظامِ تعلیم ریاستِ پاکستان کی مطلوبه ضرورت کےمطابق نهیں۔
اس وقت لارڈ میکالے کے مجوزه و قدیمی نظامِ تعلیم کے همراه پاکستان میں نظامِ تعلیم کی اسلامائزیشن کا عمل جاری هے۔ عام طور پر لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم میں هی اسلامیات کی ایک آدھ کتاب کو شامل کر کے اسے اسلامی نظام تعلیم کهه دیا جاتا هے۔ پاکستان کے نیشنل کریکلم کی بنیاد بھی اسی سوچ پر هے۔ ضرورت اس امر کی هے که لارڈ میکالے کے نصاب تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن کے ملاپ کی بنیاد پر جو نیشنل کریکلم فریم ورک تشکیل دیا گیا هے، اس کا جائزه لے کر قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں اس کی اصلاح کی جائے یا ایک متبادل فریم ورک پیش کیا جائے۔ لارڈ میکالے کے مجوزه نظام تعلیم کی کامیابی میں ایک بڑا کردار اسی علوم کی اسلامائزیشن کا هے۔
میکالے رپورٹ کے حولے سے یه واضح هے که برصغیر پاک و هند میں لارڈ میکالے نے ۱۸۳۰میں جو جدید سکول سسٹم متعارف کرایا تھا وه مجموعی طور پر تین وجوهات کی بنیاد پر کامیاب هوا۔
ان تینوں وجوهات پر ایک مختصر نگاه ڈال لیجئے:
۱۔ هندوستان میں رائج زبانوں میں جدید تعلیم کا نه هونا
۲۔ مقامی زبانوں میں بیوروکریسی پیدا کرنے کی صلاحیّت کا فقدان
۳۔ مقامی دینی رهنماوں کا صورتحال کا درست ادراک نه کرنا
۴۔ اسلامی نظامِ تعلیم کے بجائے علوم کی سطحی اسلامائزیشن کی طرف رجوع
ایک تو اس زمانے میں فارسی، سنسکرت اور عربی میں جدید تعلیم کا خلا تھا، اس خلا نے بھی اپنا کام کر دکھایا، دوسرے مقامی زبانوں میں انگریزوں کیلئے نوکر شاهی ﴿بیوروکریسی﴾ کی کھیپ تیار نهیں هو سکتی تھی، تیسرے دینی رهنماوں خصوصاً مسلمان رهنماوں نے صورتحال کی نزاکت کا درست ادراک نهیں کیا، انهوں نے بائیکاٹ، حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون، سرکاری ملازمتوں سے دوری اور جهاد بالسیف پر هی توجه رکھی اور تعلیمی جهاد کیلئے کوئی بڑی منصوبه بندی کرنے سے محروم رهے۔ چوتھے یه که سرسیّد احمد خان کی طرح جنهوں نے فوری طور پر نظامِ تعلیم کی اهمیت کو سمجھا، وه فرسٹ ایڈ کے طور پر تعلیم کی اسلامائزیشن کی طرف گئے، اسلامی نظامِ تعلیم کی طرف نهیں گئے یا حالات کے پیشِ نظر اُس طرف نهیں جا سکے۔
اُن کے هم عصر مسلمان مفکرین کو چاهیے تھا که وه سرسیّد کی مخالفت کے بجائے اُس زمانے میں موجود خلا کو پُر کرتے، خصوصاً قیامِ پاکستان کے بعد اس امر کی شدید ضرورت هے که ایک مکمل، حقیقی اسلامی نظامِ تعلیم وضع کیا جائے۔ مقامی زبانوں میں جدید تعلیم کے فقدان نے خاص طور پر انگریزی زبان کیلئے راسته هموار کیا۔ زبان کی یه تبدیلی اپنے همراه ایک مکمل تعلیمی نظام ، فکری غلامی اور عیسائیت کی تبلیغ لے کر آئی۔ لارڈ میکالے کی رپورٹ میں قابلِ توجه نکته یه بھی هے که لارڈ میکالے نے انگریزی زبان کو ذریعه تعلیم بنانے کے نتائج کو اچھی طرح جانچ لیا تھا اور اس کی نظر بهت دور تک تھی۔ چنانچه لارڈ میکالے نے صرف رپورٹ هی نهیں لکھی بلکه رپورٹ میں یه بھی لکھا هے که اگر میری بات نهیں مانی جاتی تو پھر مجھے اس کمیٹی کی سربراهی سے الگ هونے کی اجازت دی جائے۔
جتنی ضرروت لارڈ میکالے کی سوچ کو سمجھنے کی هے اتنی هی ضرورت اسلامائزیشن کو سمجھنے کی بھی هے۔ابھی تک کسی نے نیشنل کریکلم کے فریم ورک میں پائے جانے والے لارڈ میکالے اور علوم کی اسلامائزیشن کے عناصر کا قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں جائزه نهیں لیا۔ اگر یه جائزه لے لیا جائے تو عوام اور خواص سب کو ایک حقیقی اسلامی نظام تعلیم کو سمجھنے اور اسے تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کے نظامِ تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن پر یوں تو بهت زیاده قلمی و تحقیقی کا هوا هے۔ نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور علوم کی اسلامائزیشن کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرف سے مسلمانوں نے بهت زیاده کام کیا هے۔ ملائشیا کے سید نقیب العطاس کی کتاب ” اسلام اور سیکولرزم” ، ایران کے سید حسین نصر کی کتاب ” Knowledge and Secred” اور مولانا مودودی کی کتاب “تنقیحات” اور ” علمی تحقیقات: کیوں اور کس طرح؟” کا تقابلی مطالعه بهت ضروری هے۔
هم پاکستان کے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کے لحاظ سے لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات کو مجموعی طور پر دو اقسام میں تقسیم کر سکتے هیں۔
۱۔ محض نظریاتی اور مفید کتابیں
۲۔ نظامِ تعلیم پر ناظر اور تخصصی کتابیں
۱۔محض نظریاتی اور مفید کتابیں
پاکستان میں نظامِ تعلیم پر متعدد زاویوں سے کتابیں لکھی گئی هیں۔ اکثر کتابیں ایسی هیں جو برِّصغیر پاک و هند کے تقسیم هونے سے پهلے کے مروّجه تعلیمی طریقه کار کے بارے میں دینی طبقے کی کاوش هیں۔
مثلا ً ’ پاک وهند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘‘مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی یه تصنیف دو جلدوں پر مشتمل هے۔ اس میں هندوستان میں قطب الدین ایبک کے وقت سے لے کر آج تک مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے طریقے کو بیان کیا گیا هے۔ اسی طرح گوپی چند نارنگ کی کتاب” اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پهلو” یه بھی ایک مفید کتاب هے۔
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی کتاب “ پاکستان کے لیے مثالی نظام تعلیم کی تشکیل تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں”، قاضی اطهر مبارکپوری کی کتاب “خیرالقرون کی درسگاهیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت ”، ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری کی تصنیف” دینی مدارس نصاب و نظام تعلیم اور عصری تقاضے “، اور شاه ولی الله کی فارسی کتاب “ فن دانشمندی “ کا اردو ترجمه “ بھی اپنے همراه بهت ساری مفید معلومات لئے هوئے هے۔
اسی طرح اسلامی اصول تعلیم “ مترجم وشارح مفتی رشید احمد العلوی ، سید ریاست علی ندوی کی تحقیق ” اسلامی نظام تعلیم “ محمد احمد خاں کی کتاب “اقبال اور مسئلهٔ تعلیم”، شبلی نعمانی کی کتاب “ مسلمانوں کی گذشته تعلیم”، سلامت الله کی کتاب “ تعلیم فلسفه اور سماج” محمد عبدالرزاق فاروقی کی کتاب “ ابو الکلام آزاد کے تعلیمی تصورات “ محمد اکرام خاں کی کتاب مفکرین تعلیم، ڈاکٹر محمد امین کی کتاب “همارا تعلیمی بحران اور اس کا حل، چند نظریاتی مباحث”، ڈاکٹر عنایت الله، ڈاکٹر روبینه سهگل اور ڈاکٹر پرویز کی مشترکه تصنیف “پاکستان میں سماجی علوم” ابوالاعلیْ مودودی کی کتاب “نیا نظام تعلیم” یا پروفیسر بختیار حسین صدیقی کی کتاب ” برّ صغیر پاک و هند کے قدیم عربی مدارس کا نظام تعلیم “کو هی لیجئے، یه سب ماهرینِ تعلیم کیلئے بطورِ مقدمه کام آنے والی کتابیں هیں۔
اس طرح کی سینکڑوں نهیں بلکه هزاروں کتابیں مارکیٹ میں موجود هیں ۔ ان کتابوں کی خوبی اور حُسن یه هے که ان میں یه ثابت کیا گیا هے که دینِ اسلام کا ابتدا سے هی تعلیم وتعلم اور درس وتدریس کے ساتھ ایک نه ٹوٹنے والاتعلق هے ۔ ان کے محتوی میں پہلی وحی، ایک صحابی حضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ کے گھر “دار ارقم ”سے اور هجرت کے بعدمدینه منوره میں مسجد نبوی کے چبوترے(صفه) سے لے کر مختلف ملوک وسلاطین کے عهد میں بنائی گئی مساجد اور مدارس کا ذکر ملتا هے۔
تاهم ان کتابوں میں کمی یه هے که ان میں نظامِ تعلیم کو ایک مُلک گیر تعلیمی نظام کے طور پر زیرِ بحث نهیں لایا گیا۔ زیاده تر طالب علموں اور اساتذه کیلئے اخلاقی مباحث ، اسلام کے فلسفه تعلیم، اسلامی تعلیم کی تاریخ، مسلمان بادشاهوں کی ذاتی لائبریریوں، شاهی کتابخانوں، اور بادشاهوں طرف سے مساجد و مدارس کی عمارتوں کے بنوانے یا کسی مدرسے کو کبھی کوئی گرانٹ دینے، بادشاهوں یا اُن کے درباری علما کی لکھی گئی کتابوں ، کسی عالم کو خلعتِ شاهی عطا کرنے اور مدارس کے تدریسی طریقه کار کا ذکر کیا گیا هے۔
ایسی کتابوں میں انهی مذکوره بالا باتوں کو برّصغیر پاک و هند کے نظام تعلیم کیلئے مشعلِ راه قرار دے کر اپنی طرف سے فریضه ادا کر دیا گیا هے۔ ایسی کتابیں دینی و نظریاتی حوالے سے اسلامی معاشرے کیلئے مفید تو هیں لیکن تخصّصی نهیں هیں۔ یعنی ان کتابوں کی بنیاد پر هم کوئی نظامِ تعلیم تشکیل نهیں دے سکتے چونکه ایسی کتابیں نظامِ تعلیم کے موضوع سے هی کوسوں دور هیں۔
۲۔نظامِ تعلیم پر ناظر اور تخصصی کتابیں
تعلیمی نظریات کی حامل کتابوں سے هماری مراد ایسی کتابیں هیں جو پاکستان کے نظامی تعلیم کو بطورِ نظامِ تعلیم زیرِ بحث لاتی هیں اور اس کے مثبت و منفی پهلووں کا جائزه ان میں ملتا هے۔ ایسی کتابوں کی کمی ضرور هے لیکن مارکیٹ میں نایاب نهیں هیں۔ مختلف ماهرینِ تعلیم نے بطریقِ احسن یه ذمه داری نبھائی هے۔ ایسی کتابوں میں ڈاکٹر شاهد صدیقی کی کتاب “Education Policies in Pakistan “، ڈاکٹر محمد امین کی کتاب تعلیمی ادارے اور کردار سازی ، اسی طرح ڈاکٹر شاهد صدیقی کی ایک اور کتاب ‘پاکستان’ تعلیم اور اکیسویں صدی ”، ڈاکٹر ڈاکٹر طارق رحمان کی کتاب
Denizen of Alien Worlds: A Study of Education, Inequality and Polarisation in Pakistan
ایس ایچ هاشمی صاحب کی کتاب ’پاکستان میں سماجی علوم کی صورت حال‘(The State of Social Sciences in Pakistan)
آر اے فاروق کی کتاب “Education System in Pakistan” ، اور آصف اقبال خان کی کتاب “ Education, Concept and Process” کے علاوه تین مصنفین ڈاکٹر شمائله امیر، ڈاکٹر نوشابه شرف، اور پروفیسر رضوان علی خان کی مشترکه کاوش Pakistan’s Education System: An Analysis of Education Policies and Drawbacks بھی اس موضوع پر انتهائی اهم کتاب هے۔
جون ۲۰۱۴ ءمیں اس موضوع پر Institute of Advanced Engineering and Science Online نے پانچ محققین کا مشترکه مقاله International Journal of Evaluation and Research in Education (IJERE) بعنوان Critical Analysis of the Problems of Education in Pakistan:Possible Solutions چھاپا۔ اس مقالے میں ماهرانه انداز میں پاکستان کے نظامِ تعلیم میں موجود خامیوں کو تلاش کر کے انتهائی قیمتی تجاویز دی گئی هیں۔
قابلِ ذکر هے که پاکستان اس حوالے سے ایک خوش قسمت ملک هے که اس کے دانشور اس کے نظامِ تعلیم میں بهتری کیلئے مسلسل کوشاں هیں۔ ان کی یه کوششیں مختلف اخبارات و جرائد میں تعلیم و تربیت سے منسوب چھپنے والے مقالات سے عیاں هیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسے هزاروں کالمز ، مقاله جات اور کتابیں چھپ چکی هیں اور آئے روز چھپتی رهتی هیں که جن میں صاحبانِ علم و دانش پاکستان کے نظامِ تعلیم کے مختلف پهلووں کا بهترین انداز میں جائزه لے کر اپنی تجاویز و آرا کو پیش کرتے رهتے هیں۔
یه تو هم جانتے هی هیں که نظام تعلیم کے حوالے سے تجاویز و آرا کو تشکیل دینا ایک الگ کام هے جبکه ان تجاویز کی روشنی میں کوئی منصوبه بنا کر نافذکرنا یه ایک الگ کام اور صاحبان اقتدارو اختیار کی ذمه داری هے۔ چنانچه نظام تعلیم کے حوالے سے ارباب اقتدارو اختیار کی سرد مهری کا یه مطلب هر گز نهیں که
صاحبان علم و دانش نے اس ضمن میں اپنی ذمه داریوں کو نهیں نبھایا۔