AB

پاکستان اور یومِ آزادی۔ |تحریر: عارف بلتستانی

یوم آزادیِ پاکستان ۔ آزادی کےلئے، آزاد، نڈر، بہادری اور حریت پسند شخصیات کی ضرورت ہوتی ہیں۔ فکر و نظر اور سوچ کی آزادی کے بغیر حریت پسند نہیں بن سکتا نہ ہی کوئی انقلاب لے کے آسکتا ہے۔ اقبال و جناح ان خصوصیات کے حامل تھے۔ جس کی وجہ سے، “آزادیِ پاکستان”،  “حاکمیتِ اسلام” کے نام پر وجود میں لایا۔ جس کےلئے اقبال و جناح نے دن رات ایک کئے اور دین مبین اسلام کے آئین کو ہی اس نومود وطن کا آئین قرار دے دیا۔

 اسلام بشریت کےلئے ضابطہ حیات ہے۔ لیکن کچھ لوگ دین کا فقہی احکام کے ساتھ مخصوص اور انفرادی ہونے پر زور تو دیتے ہوئے کہتے ہیں دین کا انسان کے ساتھ ذاتی اور انفرادی مسئلہ ہے اس کا اجتماع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین میں سیاسی و سماجی معاملات کے بارے میں ایک دم سکوت کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا جیسا سیاست کا دین سے کوئی تعلق ہی نہ ہو جبکہ دین عین سیاست اور سیاست عین دین ہے۔ جسطرح مذہب میں عبادی معاملات ہے۔ اسی طرح اجتماعی، معاشی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی معاملات بھی دین کا حصہ ہے۔ کیونکہ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔

اسی بیانئے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے نومبر 1945ء میں پشاور میں اپنے خطاب میں کہا تھا ” آپ نے سپاس نامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ کون سا قانون ہو گا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب ہے  یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ وہی اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ پاکستان کا آئین قرار داد مقاصد کی روشنی میں اقتدار اعلی کا مالک خالق دو جہاں ہے۔ نیز یہاں کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔

لیکن بدقسمتی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے ہمراہیوں کے بعد پاکستانی حکمران نے پاکستانی سیاست کو اسلام کے بجائے دوبارہ ہیومنزم اور لبرل ڈیموکریسی کے طرز پر سیاست کا آغاز کیا۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے شہید آوینی اپنی کتاب “آئینہ جادو” کے باب “گزارشی شراب زدہ دربارهٔ سینمای پاکستان” میں لکھتے ہیں کہ ” پاکستانی دوسروں سے زیادہ اور بہت بڑے دھوکے کا شکار ہوا ہے اور یہ سوچنے لگا ہے کہ اسلام کو جمہوریت سے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہتے ہیں کہ “اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور عوام طاقت کا سر چشمہ ہے۔” شہید مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان میں شریعت اور سیاست کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے مخالف نواز شریف جیسے سیاست دان لامحالہ طور پر اپنے چہرے اسلام کے پردے کے پیچھے چھپا کر رکھتے ہیں اور پاکستان میں اپنی سماجی مقبولیت کی تحفظ کے لیے “اتحاد بین المسلمین” کے شعار استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے اپنے “شہید آوینی اور پاکستانی سینما” نامی کالم میں شہید کی کتاب “آئینہ جادو” سے یہ اقتباس پیش کیا تھا جس میں آپ لکھتے ہیں کہ “اگر چہ پاکستان نے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن پاکستانیوں نے ابھی تک (فکری، معاشی، سیاسی و ثقافتی) آزادی حاصل نہیں کی ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں سماجی دانشوروں کے فقدان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں ’’دانشور طبقہ‘‘ ابھی تک ایک ’’ طاقتور سماجی گروہ‘‘ کے طور پر سامنے نہیں آیا۔ پاکستان بلاشبہ معاشی، علمی، ثقافتی، اور سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہے۔ *اس کے لئے ضروری ہے قوم، نوجوان اور قوم کے دانشور مانگی ہوئی دانشوری سے نکل کر ایک آزاد ذہنیت کے ساتھ سوچیں۔

 جب تک سماج میں دانشوروں کو اُن کا جائز مقام نہیں دیا جائے گا ، عوام میں بھی فکری استقلال نہیں آئے گی اور ملک بھی حقیقی معنوی میں خود مختار نہیں ہو پائے گا۔ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی مشکل حقیقی معنوں میں کسی دانشورو طبقے کا موجود نہ ہونا ہے۔ لیکنان سب کے باوجود اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں سے ناامید نہیں ہے۔ یہ سرزمین پاک بہت ہی زرخیز ہے۔ حقیقی آزادی بھی نوجوان کے کندھے پر ہے۔ لیکن آزادی خون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر جوان چاہے تو ملک عزیز پاکستان ہر معاشی، علمی، ثقافتی،  سیاسی عدم استحکام اور فوجی جمہوریت کے دلدل سے نکال کر ثریّا تک لے کے جا سکتے ہیں۔ اب جوانوں پر منحصر ہے کہ آزاد ذہنیت کے ساتھ آزادی کےلئے آزادنہ سوچنے کےلئے تیار ہے یا نہیں؟ کیونکہ آزادی خون کا طالب ہے۔ آیا پاکستانی جوان پاکستانِ عزیز کو ثریّا تک پہنچنے میں جو گند پیپ رکاوٹ بنی ہوئی ہے، اس کو آبِ سرخ کے سیلاب کے ذریعے اس رکاوٹ کو دور کرنے کےلئے آمادہ ہیں؟

عارف بلتستانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link