کورٹ یارڈ کانومی اپنے گھر سے ملک کی زرعی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کا کامیاب ماڈل۔ | تحریر : سارا افضل
کورٹ یارڈ اکانومی وہ مخصوص معیشت ہے جس میں کسان اپنے گھر کے کے صحن یا آس پاس کی زمین کو کام کی بنیاد کے طور پر اور اپنے گھر کے افراد کو پیداوار اور انتظام کے یونٹس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مقامی زرعی مصنوعات یا دیگر مقامی و روایتی اجناس نہ صرف اپنی مقامی کمیونٹی کو فراہم کرتے ہیں بلکہ پیداوار میں اضافہ ہو تو اسے دوسرے علاقوں تک پہنچانے کا ایک محدود سلسلہ بھی شروع کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیات میں سب سے پہلے تو مختلف پیداواری اور انتظامی منصوبے شامل ہیں ایسے ماڈل جو کم سرمایہ کاری کے ساتھ فوری نتائج اور بہترین شرحِ اجناس دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ فلیکس ایبل آپریشنز، مارکیٹ کی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں اور فارغ یا اضافی وقت کا بہتر استعمال کرنے کی صلاحیت بڑھاتے ہیں .
آج کی دنیا میں مختلف موسمیاتی تبدیلیوں سمیت جغرافیائی حالات کے باعث خوراک کےتحفظ کا معاملہ سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ ایسے میں جہاں زراعت کی مجموعی ترقی اور اس کے فرسودہ انداز کو تبدیل کرنا اشد ضروری ہے وہیں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو ان کے دستیاب وسائل کے استعمال کی سمجھ بوجھ دینا مجموعی طور پر فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ” کورٹ یارڈ اکانومی ” آج کے دور میں زرعی معیشت کا ایک لازمی حصہ بن رہی ہے۔اس معیشت کا فائدہ یہ ہے کہ یہ منطقی طور پر مخصوص زرعی وسائل کو فروغ دیتی ہے، روایتی مہارتوں کے ورثے کو محفوظ کرتے ہوئے اسے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دے سکتی ہے اور دیہی اجناس کی پیداوار کی ایک اہم بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اضافی لیبر فورس کو ضم کرنے کا ایک مؤثر طریقہ بھی ہے۔یہ دیہاتیوں کو ان کی پیداواری ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے ایک بہت بڑے نہیں بلکہ ایک چھوٹے باغ کے ذریعے بہتر انتظامی اور پیداواری تجربہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ اپنے وسائل میں اپنے ہی گھر کے اندر سے ، گھر کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر اپنی زمین یا خود اپنی صلاحیتوں کو اپنے ذرائع آمدن کہ بہتری کے لیے بہتر بنا سکتے ہیں ۔
اس کورٹ یارڈ اکانومی کا کامیاب ماڈل ہم چین کے مختلف علاقوں میں دیکھتے ہیں ۔ 2016 میں چین نے انسانی حقوق کا جو منصوبہ جاری کیا تھا اس کے ایک حصے کے طور پر لوگوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم آمدنی کو یقینی بنا کر ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ تاہم اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی سے، مختلف کاونٹیز کے گاوں میں گھروں کے اندر چھوٹے باغات، چائے کے باغات اور مچھلیوں کے تالاب بنانے اور اپنے گھروں کے آس پاس خالی پڑی زمینوں پر مختلف تجارتی اجناس اگانے کی ترغیب دی جارہی ہے۔مقامی حکومتوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں کہ ہر گھر میںک ورٹ یارڈ اکانومی کی ترقی کے لیے ضروریانفراسٹرکچر کی سہولیات موجود ہیں ، جیسے صاف پانی ، 100 مکعب میٹر سے زیادہ کی گنجائش والا ایک چھوٹا سا تالاب اور گھر تک جانے کے لئے ایک پختہ سڑک۔ تب سے اب تک متعدد کاؤنٹیز نے کورٹ یارڈ اکانومی کو فروغ دے کر مقامی لوگوں کی آمدن میں اضافے کے قابلِ ذکر نتائج حاصل کیے ہیں۔ چین کی کینگسی کاؤنٹی نے میتھین پیدا کرنے والے گڑھے بنانے اور پھلوں اور سبزیوں کے پودے لگانے کے لیے لوگوں کے گھروں کے ارد گرد زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کی ٹھوس بنیاد رکھی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، کینگسی کاؤنٹی میں بہت سے دیہی گھرانوں نے اپنے گھروں کے آس پاس پڑی خالی زمینوں پر کیوی کا پھل لگایا ہے، جس میں م پودے لگانے کا مشترکہ رقبہ۵ ہزار ایم یو سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔کیوی کے علاوہ، لوگوں نے ناشپاتی اور اخروٹ کے درختوں کے ساتھ ساتھ چینی ادویہ پودوں جیسے خصوصی پودے بھی اگائے ، جس سے بالآخر ہر گاؤں اور ہر گھر کی اپنی نمایاں مصنوعات یا کاروبار مستحکم ہوئے.اب تک، کینگسی کاؤنٹی میں مجموعی طور پر ایک لاکھ گھرانے اس معیشت سے وابستہ ہیں ، جس سے ان خاندانوں کی فی کس سالانہ آمدنی میں ساڑھے پانچ ہزار یوآن سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے ۔
حالیہ برسوں میں کورٹ یارڈ اکانومی کو فروغ دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں سے ایک ایگریکلچرل سائنسز اور اور صوبائی محکمہ زراعت و دیہی امور کے ماہرین کے گروپس کی جانب سے مقامی کسانوں کو فصلوں کی کاشت کی تکنیک میں مزید تربیت دینا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک، پولٹری شیڈز اور وائرس سے پاک پنیری کی کاشت کی تکنیک جیسی نئی تکنیکوں کے لیے بھی مقامی لوگوں کو تربیت دی جا رہی ہے ۔یہاں زیادہ نہیں صرف ایک کانگسی کاونٹی کے اعدادو شمار ہی اس کورٹ یارڈ اکانومی کی ترقی کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جہاں اب تک 75 فیصد دیہی آبادی میں تیار شدہ فرٹیلائزیشن کے لیے مٹی کی جانچ کی تکنیک کو فروغ دیا گیاہے ، کاونٹی کے 95 فیصد سے زیادہ دیہی علاقوں میں کاشتکاری میں عملی تکینک کو مقبول بنایا ہے اور کاؤنٹی کے 85 فیصد سے زیادہ کسانوں میں بیماریوں ، کیڑوں اور جنگلی جڑی بوٹیوں سے بچاو اور کنٹرول کے لیے مربوط تکنیکوں کو اختیار کیا گیا ہے۔
مزید برآں ،اس کاؤنٹی نے کیوی پھل سمیت کچھ مخصوص فصلوں کی ماحول دوست اور نامیاتی پیداوار کے لیے معیار وضع کیے ہیں ،اورکورٹ یارڈ اکانومی سے وابستہ ہر گھر میں نامیاتی زرعی مصنوعات کی شناخت متعارف کروائی ہے ، اس طرح کوالٹی ٹریسیبلٹی سسٹم کے تحت مقامی زرعی مصنوعات کا تناسب 85 فیصد تک لایا گیا ہے۔
چین کے اندرون منگولیا کا گاوں وسان ،ہر سال 40 لاکھ جامنی لہسن پیدا کرنے کے قابل ہے اور یہ لہسن اگانے والا ہر کسان ایڈوانس 5،ہزار یوآن کماتا ہے۔یہ لہسن یہاں کی زمین کے لیے موزوں ہے اور اس کو اگانے کے لیے بہت سے آلات ، زیادہ سرمائے یا بڑے قطعہِ اراضی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ سادہ طریقے سے محدود جگہ پر بھی اسے اگایا جا سکتا ہے ۔ جامنی لہسن کی مارکیٹ قیمت سفید لہسن کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے کیونکہ اس کی غذائیت زیادہ ہے۔اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جو یہاں کورٹ یارڈ اکانومی کی افادیت کے حوالے سے دیکھی گئی وہ یہ کہ اس کو اگانے والے لوگوں میں زیادہ تر عمر رسیدہ افراد ہیں جن کی جسمانی صحت اب انہیں شدید موسم میں باہر جا کر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔ وہ گحر کے صحن میں انہیں اگاتے ہیں اور جب یہ تیار ہو جاتے ہیں تو ان میں سے کئی گھرانے جن کے پاس اس کی پیداوار ان کی ضرورت سے زیادہ ہو جاتی ہے ان کی پیداور کو علاقے کے دیگر جوان لوگ ، آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے مارکیٹ میں متعاف کرواتے ہیں اور یوں وہ گھر کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنی آمدن کا ایک اچھا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
چین میں کورٹ یارڈ اکانومی نے غربت کے خاتمے کے تاریخی سنگِ میل کو عبور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ کامیاب ماڈل یقیناً ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اچھی مثال ہے خاص طور پر پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے کہ جہاں زرعی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے بالکل بنیادی سطح پر زرعی پیداوار کو مستحکم کرنا اور اس مقصد کی خاطر کسانوں اور دیہات میں آباد لوگوں کو ان کے وسائل کے اندر رہ کر کام کرنے اور پیداوار بڑھانے کی تربیت دے کر یقیناً ہم نہ صرف دیہات کے لوگوں بلکہ ملک کی مجموعی زرعی معیشت میں بہتری لا سکتے ہیں ۔