انسان نما بھیڑیے۔ | تحریر: عارف بلتستانی
چارلی چیپلن نے کیا خوب کہا ہے ”ایک سیب گرا اور قانون کشش دنیا میں دریافت ہوا مگر افسوس کہ ہزاروں اجسام گرے اور انسان کبھی انسانیت دریافت نہ کرسکا۔
انسانیت آج زخموں سے چور چور ہے، اس سے خون رس رہا ہے ‘ وہ کراہ رہی ہے غم والم کے مارے رو رہی ہے۔ جس کا اتم مصداق غزہ ہے۔ میں اس کو سوچ کر محزون اور شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آنسو آنکھوں کے حلقے سے نکل نکل کر رخساروں کو تر کرنے میں مصروف ہیں۔
اسی اثنا میں میرا ذہن تخیل کے گھوڑے پر سوار ہوکر کربلائے عصر کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔ وہاں پہنچا ہی تھا کہ اچانک بلند و بالا عمارت مہیب آواز کے ساتھ ڈھ گئی۔ چارسو غبار پھیل گیا۔ میرا چہرہ فَق ہو گیا۔
جب اپنی طرف متوجہ ہوا تو حیران رہ گیا۔ وہ جگہ ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی تھی۔ میں وہاں ششدر تھا۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی تھیں۔ گویا صحرا میں گھمسان کی لڑائی کے دوران ریت کا طوفان اٹھ رہا ہو۔ بالکل کربلا کے لق و دق صحرا کا منظر لگ رہا تھا۔
تخیل کی وادی میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ آج کا غزہ، اس صدی کی کربلا ہے جو اکسٹھ ہجری کی کربلا کا تکرار ہے۔ کل کے ہتھیار تیر و تبر، نیزہ و تلوار تھے۔ آج کا اسلحہ ٹینک و توپ ، لانچر و راکٹ اور ڈرون و میزائل ہیں۔
کل صحرا کی ریت میں جل رہے تھے۔ آج توپوں کی تپش سے جل رہے ہیں۔ کل بھی پس پردہ یہودی لابی تھے۔ آج بھی پس پردہ اور پہلی صفوں میں یہودی لابی و سپاہی ہیں۔ کل بھی ناانصافی پر مبنی فوج تھی۔ آج بھی ناانصافی پر مبنی فوج ہے۔ کل بھی انسانی اور جنگی قوانین کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا۔ آج بھی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سوچ وہی، لابی وہی، روش وہی، افراد میں خصوصیات وہی بس زمانہ اور چہرے بدل گئے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ کل بھی مسلمان تماشائی بنے ہوئے تھے اور آج بھی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کل بھی دشمن کے پِٹھو تھے آج بھی دشمن کے آلہ کار ہیں۔
اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کروانے کے لئے دشمن کو ہمیشہ مسلمانوں نے ہی جنگی اوزار مہیا کیئے ہیں۔ آج مسلمان ممالک بالخصوص سعودی عرب اور ترکی اس کی واضح تعین مثال ہیں۔ اس بات پر تاریخ شرمندہ ہے۔
ھُو کا عالم تھا۔ تأسف کی حالت میں سر جھکا ہوا تھا۔ اچانک “بِاِیِّ ذَنْبٍ قُتِلَت” کے شور و غل سے میں چونک گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ارد گرد ملبوں کے ڈھیر سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔ کہیں کٹے سر سے صدا آرہی ہے تو کہیں کٹے بازو انسانیت کی بے بسی کا اظہار کر رہی ہیں۔
کہیں پتھروں کے درمیان لہولہان جسم سے فریاد بلند ہو رہا ہے تو کہیں معصوم بچوں کے جسم سے خون رس رہا ہے۔ میں وہیں کھڑا تھا۔ آنکھوں میں اشک تھے۔ بدن کانپ رہا تھا۔ خون میں لتھڑا ہوا تھا یا پسینے میں شرابور ؟ معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں کہاں زخم لگے ہیں۔اس حالت میں میں خون کا سمندر پار کرنے لگا۔
گرتے سنبھلتے ایک ٹیلے پر پہنچ گیا۔ وہاں سے نظریں دوڑانے لگا۔ اچانک میری نظر ایک پر تلاطم گاؤں پر پڑی کہ جس کے گلی کوچوں سے خون بہہ رہا ہے۔ اضطراب کی حالت میں خود کو وہاں پہنچایا۔ دیکھتا ہوں کہ خود کو کئی صدیوں اور سالوں پہلے کے زمانے میں پاتا ہوں۔ وہ گاؤں جس کے گلی کوچوں سے خون کا دریا بہہ رہا تھا وہ کسی اور کا نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا تھا۔
میں چونک گیا۔ میرا ضمیر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ پریشان نہ ہوں۔ صیہونیوں کےلئے خونریزی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بشریت کےلیئے خون خوار بھیڑیئے کی مانند ہیں۔ بچوں کو قتل کر کے ان کا خون پینا ان کی سرشت میں شامل ہے۔ تاریخ اس سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے انبیا اور بچوں کو اس حد تک قتل کیا کہ دریائے نیل کا پانی خون میں بدل گیا۔”
ضمیر کی بات اپنے اختتام کو پہنچی۔ میں خود بھی ذہن میں تاریخ کو دہرانے لگا۔ واقعی میں
یہودیوں کےلئے خون ریزی کرنا اور خون بہانا کوئی نیا مسئلہ نہیں تھا۔ آج مقبوضہ علاقوں میں قابض حکومت جو کچھ کر رہی ہے، اس سے ان صیہونیوں کی درندگی اور بربریت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پچھلی صدیوں میں یہودیوں کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر اپنے مسخ شدہ مذہب اور تعلیمات کے مطابق خون ریزی، کشت و خون، خون افشانی اور قتل و غارت گری پر بہت زور دیتے ہیں۔
یہ یہودی روایات ختنہ کے فوراً بعد نوزائیدہ بچوں کی چمڑی کا خون چوسنے سے لے کر “یہوواہ” کے لیے کسی انسان کو قربان کرنے اور قربانی کے خون کو ایک قسم کی کینڈی میں استعمال کرنے تک ہے۔
ڈاکٹر “ایڈرک بیسکوف” یہودی لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں، “یہودی مذہب اور اس کی تعلیمات میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ غیر ملکیوں کو قتل کیا جائے جو جانوروں سے مختلف نہیں، اور یہ قتل مذہبی طریقے سے ہونا چاہیے۔
وہ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔ یہودی مذہب کی تعلیمات پر یقین رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انہیں عظیم یہودی دیوی کے لیے قربانی کے طور پر پیش کیا جائے۔
رچرڈ بورٹن، جنہوں نے ایک طویل عرصے تک تلمود کا مطالعہ کیا، نے 1898 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب جیوز، لائیٹ اینڈ اسلام میں لکھا یا تلمود میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے مطابق یہودیوں میں دو خونی تقریبات ہیں جو یہوواہ کو خوش کرتی ہیں، ایک ان میں سے یہ انسانی خون میں بھیگی ہوئی روٹی کی عید ہے –
اس کا مطلب وہی عید ہے جس کو “فصح” کہتے ہیں۔ دوسری یہودی بچوں کے ختنے کی تقریب ہے۔ جس کے بعد نوزائیدہ بچوں کے چمڑی کا خون چوسنا ہوتا ہے۔”
تخیل میں، یہودیت اور اس کی ظلم و بربریت کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اچانک پسینے سے شرابور جسم کو ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ میں نے اپنے آپ میں آکر دیکھا تو کھڑکی کھلی تھی۔ رات کے تین بج چکے تھے۔ میری آنکھیں لیپٹاپ کی اسکرین پر ایک خبر پر ٹکی ہوئی تھی۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ “غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں جان بحق افراد کی تعداد 32 ہزار 623 تک پہنچ گئی۔
سات 07 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 32 ہزار 623 ہو گئی ہے۔ قدرہ نے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد بڑھ کر 75 ہزار 92 ہو گئی۔ وزارت صحت کے ترجمان القدرہ نے کہا ہے کہ “ملبے کے نیچے اور سڑک کے کنارے اب بھی مردہ لوگ موجود ہیں لیکن اسرائیلی فورسز کی رکاوٹ کے باعث طبی ٹیمیں اور شہری دفاع کے اہل کار لاشوں تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔”
لیکن مسلم امہ عیش و نوش میں مگن ہے۔ کوئی غاصب اسرائیل کو تیل دے رہا ہے تو کوئی بہادروں کی طرف سے اسرائیل پر کئے گئے میزائل حملے کو روکنے میں اپنی پوری جان لگا رہا ہے۔
کوئی اسرائیلی فوج تک غذائی مواد پہنچا رہا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے بہادر غلام حکمران مصلحت کا شکار ہیں۔ لیکن غزہ کے بچے میزائل سے جان گنوا رہے ہیں اور جو اسرائیلی بموں سے بچ جائیں وہ بھوک اور پیاس سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔
اسی اثنا میں، میری نظر اخبارات کے شہ سرخیوں پر پڑی، ششدر دہ گیا۔ شہ سرخیوں میں ثبت تھا کہ “سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا” مجال ہے اس پر کوئی مولوی فتویٰ دے۔ لیکن ہم پاکستانی مسلمان انکو خادم حرمین الشریفین ہی سمجھتے ہیں۔
وہ تو غیر مسلوں کے خادم ہیں جن کو سر عام شراب خانے کھول دیا گیا۔ یہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے
کہ کیا یہ شیخین حرم مسلم امہ کے لیڈر بننے کے لائق بھی ہیں؟