پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شہادت کے 45 سال بعد انصاف مل سکا۔ | تحریر: ارشد قریشی
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ پاکستان میں آپ کو قائدِعوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئین بھی کہا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے مقبول وزیرِ اعظم رہے ۔
انہوں نے 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔
سن 1958تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔ دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
سن 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ ستمبر 1977ء میں مسٹر بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہوا کہ ملک کے پہلے عوام کے منتخب کردہ وزیرِ اعظم کو پھانسی دےد ی گئی۔
بھٹو کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف سلمان تاثیر جن کا بعد میں قتل کردیا گیا، اپنی کتاب ’بھٹو‘ میں لکھتے ہیں ’شروع کے دنوں میں بھٹو جب بیت الخلا جاتے تھے تو ایک سیکورٹی گارڈ وہاں بھی ان کی نگرانی کرتا تھا۔ بھٹو کو یہ بات اتنی ناپسند تھی کہ انھوں نے تقریباً کھانا کھانا بند کردیا تھا تاکہ انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کچھ دن بعد اس طرح کی سخت نگرانی بند کردی گئی تھی اور ان کے لیے کوٹھری کے باہر علیحدہ ایک بیت الخلا بنوا دیا گیا تھا۔
بھٹو کو جیل کے اندر پڑھنے کی آزادی تھی۔ آخری دنوں میں وہ چارلس ملر کی ’خیبر‘، رچرڈ نکسن کی سوانح عمری، جواہر لال نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ اور صدیق سالخ کی ’وٹنیس ٹو سرنڈر‘ کا مطالعہ کر رہے تھے۔
پنجاب حکومت کے جلاد تارا مسیح کو بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے لاہور سے بلایا گیا تھا۔ ان کا یہ کام پشتینی پیشہ تھا۔ ان کا خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے پھانسی دینے کا کام کررہا تھا۔اس وقت تارا مسیح کی تنخواہ 375 روپے ماہانہ تھی اور ہر پھانسی دینے پر انہیں اضافی 10 روپے ملتے تھے۔
جہاں ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ان کی خامیوں پر بات کی جاتی ہے وہیں ان کی بہت سی خوبیوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ہے بھٹو ایک سخت مزاج سیاستدان تھے مخالفین کو برداشت نہ کرتے اور انہیں کچل دینے کو بہتر سمجھتے تھے ۔دلائی کیمپ جیسے بدنامِ زمانہ عقوبت خانوں کو بھٹو کی ایجاد کہا جاتا ہے ۔جب کہ ملک کو دولخت ہونے کا ذمہ دار بھی بھٹو کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں بھٹو کی گرفتاری کے بعد پاکستان ٹیلیویژن پر ایک پروگرام ” ظلم کی داستان ” شروع کیا گیا جس میں کئی لوگ بھٹو دور میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے بات کرتے نظر آتے تھے۔
ان تمام باتوں کے باوجود انھوں نے وطن کے لیے کئی کام ایسے کیے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایک متفقہ دستور دیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا، ہوٹلوں میں رقص و سرور کی محفلوں، شراب اور جوئے پر پابندی لگائی، اتوار کے بجائے جمعہ کے ہفتہ وار چھٹی کا آغاز کیا، ملک کا ایٹمی پروگرام شروع کیا، روس سے تعاون سے پاکستان اسٹیل ملز قائم کیا۔