ملک کے انتخابات ، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ۔ | تحریر محمد ارشد قریشی

گذشتہ دنوں ۰۸ فروری کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے یہ وہ انتخابات تھے جن کے حوالے سے بہت سی افواہیں  گردش کر رہی تھیں لیکن چیف جسٹس پاکستان کے اس بیان کے بعد کے ۰۸ فروری کو ملک میں انتخابات ہونا پتھر پر لکیر ہے  تقریباً تمام افواہیں دم توڑ گئیں  اس کے باوجود ہر گذرتے دن کے ساتھ شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان  کے اس اعلان کے بعد کے اس بار انتخابات کی کوریج  کے لیے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو بھی کارڈ جاری کیے جائیں گے الیکشن کی شفافیت پر بھروسہ بڑھنے لگا ۔

بلا آخر وہ دن آہی گیا  ملک میں زیادہ تر مقامات پر پولنگ مقررہ وقت پر شروع ہوئی اور لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے میں آیا  خوش آئند بات یہ بھی تھی کہ ملک کی کسی بڑی جماعت نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی نہیں کیا اور شام پانچ بجے تک جاری رہنے والی پولنگ پر تقریباً  سب ہی جماعتیں مطمئن بھی دکھائی دے رہی تھیں  میڈیا پر غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کا سلسلہ شروع ہوتے ہی رات گئے تک کسی جماعت نے بھی دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا  معاملات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب میڈیا پر انتخابی نتائج آنے  کا تسلسل قائم نہیں رہا اور بلا آخر وہ تسلسل یکسر ختم ہوگیا اور  ملک کے سب سے بڑے معاشی شہر کراچی کے نتائج میں تاخیر ہوئی اسی دوران  الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ اطلاعات بھی آنا شروع ہوئیں کہ میڈیا پر جو نتائج جاری کیے جا رہے ہیں وہ درست نہیں الیکشن کمیشن فام ۴۷ کے تحت جو نتائج جاری کرے گا وہ ہی تصدیق شدہ اور حتمی ہوگا۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی گردش کرنے لگی کہ الیکشن کمیشن نے فام ۴۷ امیدواروں کی غیر موجودگی میں بنائے اور جاری کیے اس کے بعد ایک طرف پورے ملک میں دھاندلی کا شور زور پکڑ گیا تو دوسری جانب الیکشن کمیشن نے فام ۴۷ اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے شروع کردیے  اس کے بعد امیدواروں کی جانب سے یہ الزامات آنے شرو ہوئے کہ جو فام ۴۷ اپ لوڈ کیے جا رہے ہیں وہ فام ۴۵ کے مطابق تیار نہیں کیے گئے اور یوں ملک میں ہونے والے عام انتخابات داغدار ہوتے چلے گئے۔

سوچتا ہوں کہ کئی دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک  میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ  کا  طریقہ   استعمال کرتے ہوئے عام انتخابات کا انعقاد ہوتا تو شاید  دھاندلی کا یہ طومار اس طرح نہ شروع ہوا ہوتا ، میری ذاتی رائے کہہ لیں یا سوچ کہ اگر ہم بھی الیکٹرانک ووٹنگ پر آجائیں تو ایک جانب تو اس کے مطابق نتائج کو تمام جماعتیں تسلیم کریں گی تو دوسری جانب ٹرن آوٹ اتنا  بہتر ہوگا کہ شاید کسی بھی انتخابات میں اتنا بہتر نہ ہو ، اس کی کئی وجوہات ہوں گی  اس طریقہ کے مطابق نادرا طرز کی کوئی ایپ متعارف کرادی جائے جس میں ایک بار شناختی کارڈ پر ووٹ دینے کے بعد دوبارہ نہیں دیا جاسکے اس طرح ملک سے باہر مقیم پاکستانی بھی باآسانی ووٹ دے سکیں گے اور ملک میں رہنے والے ایسے افراد جو  روزگار کے سلسلے میں دوسرے صوبوں میں مقیم ہیں وہ بھی اپنے امیدواروں کو منتخب کرسکیں گے  ساتھ ہی ایسے افراد جو امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے ایمرجنسی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں وہ بھی اپنا ووٹ دے پائیں گے ۔ اگر شہر کراچی کی ہی مثال لے لی جائے تو یہاں روزگار کے لیے ملک کے دوسرے صوبوں سے آئے لاکھوں لوگ مقیم ہیں جن میں مزدور طبقہ سب سے زیادہ ہے  ظاہر ہے وہ تمام لوگ نہ یہاں اپنا ووٹ  ڈال پاتے ہیں نہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ ایک دن کے لیے اپنے علاقوں میں جا کر ووٹ ڈالیں  یہ ہی وجہہ ہے کہ انتخابات میں ٹرن آوٹ  کم نظر آتا ہے ۔

جب ہم آن لائن شاپنگ، آن لائن بینکنگ ، آن لائن شناختی کارڈ ، آن لائن فیملی رجسٹریشن فام ، آن لائن پاسپورٹ وغیرہ وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں تو ہم موبائل ایپ کے ذریعے ووٹ بھی دے سکتے ہیں ۔

دوسری اہم بات کہ اس طریقہ کار سے اعداد و شمار میں غلطی کا امکان صفر ہوجائے گا ، جیسا کہ ابھی کئی جگہوں میں دیکھنے میں آیا کہ کسی حلقہ میں صوبائی ووٹوں کی تعداد قومی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے تو کہیں قومی کی صوبائی کے مقابلے میں حالاں کہ قومی اور صوبائی کے انتخابات ایک دن ہونے سے اس طرح کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

ان تمام باتوں سے ممکن ہے قارئین اتفاق کریں  اور اتفاق نہ بھی کریں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی اور قانون سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں ایک صفحہ پر آنا ہوگا کیوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ایسا قانون لائی تھی جسے بعد میں آنے والی حکومت نے منسوخ کردیا ، اگر  ہمیں ملک کو  آگے لے کر چلنا ہے اور اس کی ترقی میں خلوص دل سے سب کو حصہ ڈالنا ہے تو اس طرح کے فیصلوں پر ایک صفحہ پر آنا ہوگا ۔

 کچھ دیر کے لیے تصور کریں کہ جو طریقہ کار کا ذکر کررہا ہوں اگر یہ  موجودہ  ہونے والے انتخابات میں رائج ہوتا تو آج ملک کا کس کس مد میں پیسہ محفوظ ہوتا ، سب سے پہلے کاغذ کی بچت ہوتی جو دنیا میں مہنگے سے مہنگا ہوتا جارہاہے، چھپائی کی بچت ہوتی، ملک کے کونے کونے میں بیلیٹ پیپر پہنچانے کے اخراجات میں بچت ہوتی،  لاکھوں لوگوں کی انتخابی ڈیوٹی اور ٹریننگ کے اخراجات میں بچت ہوتی ،  درس گاہوں کو پولی اسٹیشن بنانے سے جو تین دن تعلیم کا نقصان ہوا  اس سے بھی بچا جاسکتا تھا  اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے اخراجات سے  بچ کر ملک کا  سرمایہ بچایا جاسکتا تھا ۔

MAQ

ارشد قریشی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link