حفصہ محمد فیصل کی کتاب ” نیکی کے پھول”، ۔ | تبصرہ: شمائلہ شکیل
معلمہ محترمہ حفصہ فیصل صاحبہ کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ صحافت کی دنیا میں ایک بہترین لکھاری ہونے کی حیثیت سے معروف ہیں۔ جس صنف تحریر پر قلم اٹھاتی ہیں اس کا حق ادا کر دیتی ہیں۔ اگر آرٹیکل کی بات کی جائے تو منتخب موضوع کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے پر آئیں تو صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتی ہیں۔ افسانے میں ایسی جان ڈالتی ہیں کہ قاری کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔ سفر نامے میں، پڑھنے والے ان کے سنگ پہاڑوں، وادیوں اور دریاؤں کی سیر کر کے مبہوت ہو جاتے ہیں۔ معلمہ محترمہ آن لائن تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو کر بھی خاصی پہچان بنا چکی ہیں۔ لہذا اردو اور قرآن پاک پڑھانے کے ساتھ ساتھ صحافت کورس اور کانٹینٹ رائٹنگ کورس بھی بڑی کامیابی سے کروا رہی ہیں۔ زیر تربیت طالبات میں اپنے علمی رسوخ، نرم دلی، یکساں سلوک اور دلفریب انداز تدریس کی بنا پر بہت مقبول ہیں. اس کے علاوہ مختلف پلیٹ فارمز پر کنٹینٹ رائٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کا سوشل نیٹ ورک کافی مضبوط ہے۔
زیر تبصرہ کتاب “ان” کی بچوں کے لیے لکھی گئی 28 کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جس کی ہر کہانی بچوں کی معصوم اور نت نئی چونکا دینے والی شرارتوں سے بھرپور ہے۔ یہ کہانیاں کسی جنگل، جھیل، دریا، پہاڑ، پری، دیو سے ملواتیں، قدرت سے تعلق اور جانوروں سے محبت کا ایک نیا سبق دیتی ہیں۔ نیکی کا پھول کی چھٹی کہانی “سمیر جھوٹ نہیں بولتا” میں بچوں کے لیے بہت عمدہ سبق ہے۔ اور یہ مجھے ذاتی طور پر بھی بے تحاشہ پسند آئی۔ ہمارے معاشرے کو ایسے ہی معماروں کی ضرورت ہے۔ آٹھویں کہانی “جہاز بنانے والا” بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار کے لیے سازگار ماحول اور حوصلہ افزائی کی اہمیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے۔ نویں کہانی “ابو کتنے اچھے ہیں” بظاہر یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے، لیکن اس میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ جیسے: والدین کی عنایتوں کا اعتراف، احساس، خدمت اور شکریہ ادا کرنا۔ “گندی مچھلی” حسد کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور اس کے انجام کو نمایاں کرتی ایک پیاری سی کہانی ہے، جس میں بچوں کو دلچسپ انداز میں کسی بھی معاملے کی تفتیش کر کے تہہ تک پہنچنا سکھایا گیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر عنوان بن کر جگمگانے والا “نیکی کا پھول” اس کہانیوں کے گلدستے کا سب سے حسین پھول ہے۔ یہ کہانی ایک نرم دل لڑکی کی بھی ہے اور ایک بادشاہ کی بھی، جو نیکی کو دیکھنا چاہتا ہے اور اعلان کرواتا ہے، کہ جو نیکی کو ڈھونڈ کر لائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ آگے کیا ہوا؟ نیکی ڈھونڈنا ممکن ہو سکا یا نہیں؟ یہ سب تو آپ کو کہانی پڑھ کر ہی پتہ چلے گا۔ “موتی مالا” میں ذکر ہے ایک غریب موتی مالا بنانے والے لڑکے کا، شاہی محل کا، جنگل کی خوبصورتی اور ریشم پری کی عنایت کا اس کے ساتھ ہی اس میں ایک سبق بھی ہے، کہ ظلم اور جذباتی فیصلوں سے بچنا چاہیے۔ “اب آئی سمجھ” میں الو میاں، مینڈک اور مینڈکی کے ذریعے بچوں کو سکھایا گیا ہے کہ مسائل کے ساتھ جینے کے بجائے انہیں حل کرنا چاہیے اور یہ کہ پڑوسیوں کو پریشان کرنا بری بات ہے۔ “ادھوری گاجر” رزق کی قدر و اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ “میرا کشمیر” انسانوں میں برابری کا درس دیتی اور وطن کی محبت اور حفاظت کے جذبوں سے گندھی خوبصورت کہانی ہے۔ “لازوال تحفہ” اسے میں نے دو بار پڑھا ہے اور ہر بار آنکھیں نم ہوئیں۔ “علی عثمان” جیسے ہیرے قابل قدر ہوتے ہیں، اور لازوال تحفوں کے مستحق بھی۔ “وعدہ” منافق کی علامتیں بتا کر اپنا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتی ایک پیاری سی کہانی ہے۔ “ہم ایک ہیں” میں حسرتوں اور مایوسیوں کا قلع قمع کر کے خوشیاں بانٹنے کی ترغیب ہے۔
اس کتاب کا سرورق انتہائی دیدہ زیب، صفحات عمدہ اور لکھائی بہترین ہے۔ اس مجموعے کو پریس فار پیس پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ بچوں کی صدارتی ایوارڈ یافتہ اور سائنس فکشن رائٹر “محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ” نے اس پر ایک جامع تبصرہ لکھا ہے۔ محترمہ مصنفہ صاحبہ کی اس سے پہلے بھی دو تصانیف “باتیں اعضا کی” اور “جنت کے راستے” منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں بچوں کی تربیت کے کتنے ہی گوشے روشن ہیں۔ اگر یہ کتابیں بچوں کے زیر مطالعہ ہوں تو کچھ بعید نہیں کہ ہمارے معاشرے کو بہترین معمار نصیب ہوں۔