میلہ ماگھی،سکھ مذہب کامذہبی تہوار13جنوری، سکھوں کی عید ۔ | تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی

ماگھی کالفظ بکری تقویم تاریخ کے دوسرے مہینے ”ماگھ“سے لیاگیاہے۔یہ تہوار ماگھ کی پہلی تاریخ کو پورےہندوستان میں منایاجاتاہے۔سکھوں کے ہاں اس کو ”میلہ ماگھی“کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔جب کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوںجیسے نیپال اور بنگلہ دیش میں اس تہوارکانام ”مکرسنکرانتی“ہے۔تامل ناڈومیں اس دن کو”پونگل“کہ کرمنایاجاتاہےاورکیرالہ،کرناٹک اورآندھراپردیش میں اسے طویل نام کی بجائے ”سنکرانتی“کامختصرنام ہی دیاجاتاہے۔اس تہوارکی تاریخ میں ہندوستان کی ستارہ شناسی،علم نجوم اور حساب گردانی کابغورمشاہدہ کیاجاسکتاہے۔یہ تہوار شمسی تقویم کے پہلے مہینے جنوری کے وسط میں کہیں واقع ہوتاہے۔عصری تحقیقات کی مطابق جنوری کی انہیں تواریخ میں سورج کی سالانہ گردش خط قوس سےگزرکرخط جدی میں داخل ہوجاتی ہے۔ہندی میں جدی کو”مکر“ کہتے ہیں اسی لیے اس تہوار کے ساتھ ”مکر“کاسابقہ لگایاجاتاہے۔یہ دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کاحامل ہے سورج کاخط تبدیل ہونے سے دن کی روشنی کے دورانیے میں اضافہ شروع ہوجاتاہے اور عرف عام میں کہاجاتاہے کہ دن بڑے ہوناشروع ہوگئے ہیں۔رات کے مختصراوردن کے طویل ہونے کی مسرت لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کاباعث بن جاتی ہے اور اس سے موسم سرماکی شدت کی روبہ زوال ہوجاتی ہے چنانچہ یہ امور عام عوام کے کام دھندا،فصلوں اور سفرمیں آسوددگی اورراحت کاباعث بنتے ہیں اسی لیے ان کے آغازپر یہ مذہبی تہوارمنایاجاتاہے جو ایام سالانہ میں حسین تبدیلی کاآغاز ہوتے ہیں۔

جن خلائی حقائق تک آج کی سائنس نے اب رسائی حاصل کی ہےہندوستان کے ہزاروں سال قبل کے ماہرین ریاضی و حساب و الجبرااور ماہرین علم نجوم و ماہرین ارضیات و افلاکیات ان سےکماحقہ واقف تھے۔اس سے اندازہ ہوتاہے ہندوستان میں وحی کانزول جاری تھا اورانبیاء علیھم السلام تسلسل سے مبعوث ہوتے رہے کیونکہ قرآن مجیدنے بتایاہے کہ ”ولکل قوم ھاد(سورۃ رعد)“ کہ ہم نے ہرقوم کی طرف نبی بھیجے ہیں۔اسی سے ملتاجلتاایک اورتہوارجسے ”لوہڑی“کہاجاتاہے، یہ بھی مشرقی پنجاب،ہریانہ،دہلی کے نواح،جموں،کشمیر اورراجھستان میں ہرسال منایاجاتاہے۔چونکہ ”لوہڑی“اور ”ماگھی“ایک دن منائے جاتے ہیں اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ یہ ایک ہی تہوارہے جودومختلف ناموں سےموسوم ہے۔اس”لوہڑی“تہوار کی وجہ جواز بھی بڑے دنوں کی آمدہے جس کے باعث دن کازیادہ حصہ کارآمدہوجاتاہے اورتاجر،کسان،سوداگر اور بیوپاری حضرات کو اپنی آمدن میں اضافہ کی امیدنظرآنے لگتی ہے اورخواتین کوبھی گھرگرہستی کے لیے وقت کی اضافت میسرآجاتی ہے۔”لوہڑی“کے تہوار پر ایک گیت بھی گایاجاتاہے جو ایک مسلمان”دلابھٹی“سے موسوم ہے۔صدیوں بعد ”دلا“ شایداصل میں ”عبداللہ“ہوگا جو پنجابی ثقافت میں نام کے اسم تصغیرکے طورپراب ’دلا“سے مشہورہوگیا۔یہ ایک لوک کہاوت ہے کہ وقت کاحکمران ایک خوبصورت لڑکی کواغواکرناچاہتاتھالیکن اس”دلابھٹی“نے اس لڑکی کی مرضی کے مطابق اس کے چاہنے والے ایک لڑکے سے اس کی شادی کردی۔یہ شادی جنگل میں چھپ کر کی گئی جس میں لڑکا،لڑکی اور ”دلابھٹی“ہی شامل تھے اورچوتھاکوئی فرد نہ تھا۔لڑکالڑکی چونکہ ہندوتھے اور”دلابھٹی“کوہندووانہ شادی کے منترنہیں آتے تھے اس لیے اس نے آگ کے گرد سات پھیرے لگاکر ایک پنجابی گیت گادیاجس میںوقت کی ستم ظریفی کو حاصل کلام بنایاگیاتھا۔چنانچہ آج تک وہ لوگ گیت ”لوہڑی“کے اس تہوار میں رقص و سرود اورمحفل موسیقی میں آگ کے گرد بیٹھ کربڑی کثرت سے گایاجاتاہے۔

قدیم زمانوں میں ہمالیہ کے دامن کے جان لیوا برفانی یخ بستہ ماحول میں بسنے والے لوگ سردیوں کے وسط میں یہ تہوارمناتے تھے جب ربیع کی فصل اترچکتی تھی۔اس زمانے میں ہفتوں کے بعد گھرکے صحن میں آگ کاالاؤ تیارکیاجاتاتھا،اس کے گرد ساراخاندان اکٹھاہوتااورجاڑے کے سخت ترین ایام کے خاتمے اور بڑے دنوں کی آمدکااستقبال کیاجاتااورناچ،گانااورکھانے کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔یہی روایت ہمالیہ سے بہنے والے دریاؤں کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ہندوستان کے دیگرعلاقوں میں بھی پہنچی اور اس نے باقائدہ مذہبی تہوارکی شکل اختیارکرلی۔پنجاب میں جب سکھوں کاراج تھاتو”لوہڑی“کے دن راجہ کی طرف سے کپڑے اور قیمتی تحائف عوام میں درجہ بدرجہ تقسیم کیے جاتے تھے اور آنے والی رات کوآگ کابہت بڑاالاؤ روشن کیاجاتااور اس کے گرد راجہ اپنادربارلگاتااور ساری رات اس تہوار کو منانے کاجشن جاری رہتا۔اس کےبعد آج تک یہ تہوار منایاجاتاہے۔اس دن بچے ”دلابھٹی“کانام لے کر گیت گاتے ہیں۔صبح سویرے بچے بچیوں کی ٹولیاں میٹھی کھیرکھاکر اور شوخ رنگ کے کپڑے پہن کرگھروں سے نکل کر گلیوں میں اکٹھی ہوتی ہیں،ایک بچہ اونچی آوازمیں گیتگاتاہے،گیت کامصرعہ ختم ہونے پر سب بچھے مل کر”ہوئے“کالفظ بولتے ہیں اور گیت کاایک بندختم ہونے پر پہلامصرع سب بچے مل کرگاتے ہیں اوریہ سلسلہ چلتارہتاہے۔یہاں تک بچوں کی یہ ٹولیاں کسی وڈیرے کے گھرجمع ہوکر خواتین کوبھی اپنے ساتھ ملالیتی ہیں اور بعددوپہرتک یہ سلسلہ چلتاہے جس میں بڑوں کے ساتھ شامل ہونے میں آلات موسیقی اور مقالی رقص کی”بھنگڑا“اور”لڈی“مشق بھی شامل ہوجاتے ہیں۔”بھنگڑا“مردوں کا رقص ہوتاہے جوبہت بڑے پیٹ والے ڈھول کی تھاپ پرناچاجاتاہے اور ”لڈی“کارواج عورتوں میں پایاجاتاہے جوتالیوں اور چٹکیوں کے ساتھ کرتی ہیں اور یہ دونوں رقص دائرے کی شکل میں اجتماعی طورپر گھومتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔اس رسم کے اختتام پر میزبان اہل خانہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مشروبات اور میٹھائی سے شرکاء کی تواضع کریں گے چنانچہ بڑے پیمانے پر اس کااہتمام کیاگیاہوتاہے جس کی تیاری میں کئی دن سے کئی لوگ مصروف عمل ہوتے ہیں۔دوپہرکاکھانااپنے اپنے گھرکھائیں یاایک ہی جگہ کھائیں اس کے مشمولات لازمی طورپر سرسوں کاساگ اور مکئی کی روٹی ہی ہوتی ہے۔جموں اورکشمیرمیں ”چھجاناچ“اور ”ہیرن ناچ“ کے نام کارقص بھی کیاجاتاہے۔یہاں مورکے پروں سے ایک خاص قسم کا دائرہ نما ”چھجا“تیارکیاجاتاہے جسے عام فہم زبان میں ٹوکراسمجھ لیناچاہیےجو دیہاتوں میں خواتین سروں پر اٹھائے ہوتی ہیں۔اس ”چھجا“کو باری باری ہاتھوں میں پکڑکر ایک خاص سرمیں بجنے والےسازینے پر رقص کیاجاتاہے جو”ہیرناچ“کہلاتاہے اوریہ صرف لڑکیاں ہی کرتی ہیں۔یہ ”چھجا“محلے کے سب گھروں میں جاتاہےاورخوشیاں لٹاتاہے۔

آنے والی رات میں جلائی جانے والی آگ کاانتظار ہفتوں پہلے سے کیاجارہاہوتاہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں محلےاوربرادری کے ہر گھرمیں جاتے ہیں اور اس رات کاسامان اکٹھاکرتے ہیں۔ہر گھروالے ان کاانتظارکرتے ہیں،اگرکسی میں نہ جاسکیں تواس گھروالے ناراضگی کااظہارکرتے ہیں۔ہرگھراپنی بساط کے مطابق اس رات کے لیے اپناحصہ ڈالتاہے۔اگرکوئی گھرانہ اس رات میں براہ راست استعمال ہونے والی اشیاء نہ دے سکے تواہل خانہ ایسی چیزیں ضروردے دیتے ہیں جن کازرتبادلہ کام آسکے۔اگرسامان پورانہ ہو تو محلے کے لڑکے ایک لڑکے کے منہ پر راکھ لگاکراوراس کی کمرمیں رساباندھ کراس کے پیچھے چلتے ہیں اور لوہڑی گیت گاکر اونچے اونچے سے ان چیزوں کوگاتے ہیں جن کی ضرورت ابھی باقی ہوتی ہے،محلے کے گھروں والے لڑکوں کی اس حرکت پرمحظوظ ہوتے ہیں اورمزیدسامان ضرورت کی تکمیل بھی کردیتے ہیں۔رات کی آگ پر ساراگاؤں جمع ہے،مردوخواتین،لڑکے لڑکیاں اوربچے بچیاں ہر کوئی اپنے چہرے پر خوشیاں سجائے اور زرق برق لباسوں کوزیب تن کیے اس تہوارمیں شریک ہیں۔قسم قسم کے کھانے پکے ہوئے بھی ہیں اور پک بھی رہے ہیں اور بیچےخریدے بھی جارہے ہیں اور مفت بھی تقسیم ہورہے ہیں۔مکئی دانوں کے بھوننے کی بھینی بھینی خوشبو ساری میلے میں پھیلی ہوئے ہے،دال کے لڈواور کٹی اور مصالحہ لگی گاجریں اورمولیاں اورشلجم بھی ہیں اور سب سے زیادہ پسندیدہ،لذیزاورخوشبودارپکوان وہ چاول ہیں جن کی رغبت ہرکسی کواپنی طرف کشش کیے ہوئے ہے۔ہرگھرکی خواتین خواہش رکھتی ہیں ان کاپکاہوا کھاناسب لوگ ذائقہ کریں اورپھرتعریف بھی کریں۔رات گئے تک یہ تقریب جاری رہتی ہے۔

براہواس سیکولربدیسی راج کاجس نے یہاں کے مقامی لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین کربستیوں کوبے رونق کردیا۔انگریزسے پہلے سب مذاہب کے لوگ اکٹھے اورہنسی خوشی رہتے تھے،انگریزکے بعدسے ایک ہی مذہب اورایک ہی برادری اور ایک ہی علاقہ،رنگ و نسل وزبان کے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اورخون کی ندیاں بہنے لگیں۔سیکولرازم نے ہندوستان سمیت پوری دنیاکو پیٹ کی خواہش اورپیٹ سے نیچے کی خواہش کاغلام بناکرمعیارزندگی کی بڑھوتری کے ایک غیراعلانیہ مقابلے کی آگ کاایندھن بنارکھاہے وجہ صرف یورپی مصنوعات کو مجبوری بناکردنیاسے دولت سمیٹنااوربنی نوع انسان کو سودکی بیڑیاں ڈال کرانہیں اپناتہذیبی،تعلیمی،معاشی اوردفاعی غلام بناناہے۔اب شرق و غرب سےٹھنڈی ہواؤں کی آمدآمدہے بس اب یہ مداری تماشادکھاکر گیاچاہتاہے اورشکست خوردہ سرمایادارانہ نظام مرض الموت میں گرفتارمیں آخری سانسیں لے رہاہے۔دنیاکوبہت جلد انبیاء علیھم السلام کے پیغام کی طرف پلٹناہے،صرف اسی ذریعے سے خوشیاںملیں گی،باقی سب ذرائع شرمندگی و ندامت اور نقصان وخسارہ پر منتج ہونے والے ہیں سوائے ان کے جوایمان لائے،نیک عمل کیے،حق بات کی تلقین کی اور صبرکی تاکید کرتے رہے۔

ڈاکٹر ساجد خاکوانی کی مزید تحریریں پڑھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link