سحر شعیل

میرے ہر شعر کا عنوان ہے مرشد۔ | تحریر : سحر شعیل

شاعروں اور ادیبوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ لفظوں کے کاری گر ہوتے ہیں۔لفظوں کی دنیا میں رہتے ہیں،لہجوں کا اوڑھنا اوڑھتے ہیں،  رویوں کے ساتھ جیتے ہیں اور اپنا سخن تراشتے ہیں۔ بہت سے لفظ ایسے ہیں جو دل میں اتر جاتے ہیں،جو روح کو چھو جاتے ہیں،جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر اپنااثر چھوڑ جاتے ہیں۔جیسے کہ لفظ “مرشد ” کس قدر پُر تاثیر ہے یہ لفظ۔ ادب میں یہ لفظ تصوف کی وساطت سے آیا ہے۔کامل مرشد ہی طالب کو حق کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔زمانے کی آلائشوں سے آلودہ ایک بے کار انسان کو کندن بناتا ہے۔۔ طالب کی حیثیت مرشد کے سامنے گویا نابینا کی سی ہے جس کے تخیل میں مرشد رنگ بھرتا ہے،اسے اپنی آنکھیں عطا کرتا ہے اور بینا بناتا ہے۔ تصوف سے نکل کر دیکھیں تو بھی اس لفظ کی بہت کرامات ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایسے ہی کسی کے لئے نہیں بولا جا سکتا۔ جب ہم کسی کو یہ منصب دیتے ہیں تو عقیدت اور محبت واحترام کی انتہا تک چلے جاتے ہیں۔یعنی مان لیا ہے کہ جو پیر و مرشد ہے وہ دل کی مسند پر تمکنت سے جلوہ گرہے۔اس کا ہر لفظ باعثِ اعزاز ہے اور اس کی ہر نصیحت واجب الاطاعت ہے۔جس کی نگاہِ التفات باعثِ شفا ہے۔راکب مختار نے کیا خوب کہا ہے

حکم مرشد پہ ہی جی اٹھنا ہے،مر جانا ہے
عشق جس سمت بھی لے جائے ادھر جانا ہے

 شاعر نے بے حد کمال کی بات کی ہے کہ جی اٹھنا یا مر جانا مرشد کے سپرد ہے۔درحقیقت یہی اس لفظ کی خوب صورتی ہے کہ جسے مرشد کہہ دیا اسے خود اپنی ذات سے بھی آگے رکھ دیا۔زندگی میں اگر کوئی مرشد مل گیا تو سمجھو حیات کا مقصد مل گیا۔وہی خضرِ راہ ہے جو اندھروں میں روشنی کی کرن بن کر راستہ دکھاتا ہے۔وہی مرشد ہے جو زندگی کے بیابان صحرا میں شجرِ سایہ دار بن جاتا ہے۔وہی مرشد ہے جس کی نگاہ خاک کے اس وجود کو کندن بناتی ہے۔وہی مرشد ہے جس کی تربیت کی بدولت انسان سے انانیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔عاجزی اور انکساری کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔وہی مرشد ہے جس کے لئے خاک ہونے پر جاودانی ملتی ہے۔جو انسان کی روح سے تکبر،غرور اور ہوس جیسی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔مرشد کی نگاہِ کامل ہی زندگی کی کایا پلٹتی ہے۔ مرشد کے طفیل ہی کامرانی کے در کھلتے ہیں۔ مرشد ہی چارہ گر ہے جس کے پاس طالب کے ہر مرض کی شفا ہے۔جو رگِ جاں کے قریب رہتا ہے۔جو صحیح معنوں میں نبض شناس ہے۔

یہاں اس موضوع میں دو کردار ہیں۔ایک وہ ہستی جسے مرشد مانا جائے۔ایک وہ طالب جو کسی کو اپنا خضر مان لے۔ وہ ہستی جسے مرشد مان لیاجائے اسے اس مسند پر فائز کرنے کے بعد وہ عام شخص نہیں رہتا۔اس کی ہر بات معنی رکھتی ہے۔اس کی ہر نصیحت اثر رکھتی ہے اور اس کی دعا تو شفا ہی شفا ہے۔اگر اس دورِ پر آشوب میں کسی کو مرشد مل جائے تو اس سے بڑھ کر خوش بختی اور کوئی نہیں اور اگر مرشد کا ساتھ مسلسل مل جائے تو سمجھ لیجیے زندگی کا راستہ ہموار ہو گیا۔مرشد یوں تو اسی دنیا کا فرد ہوتا ہے مگر طالب کی نظر میں وہ زمیں زاد آسمانی ہوتا ہے۔ایساطبیب جو ہر مرض کی شفا بن جائے۔جس کے الفاظ خالی الفاظ نہ رہیں امرت بن کر روح میں گھل جائیں۔جس کا سہارا پا کر انسان بند آنکھوں سے زندگی کے پر خار رستوں کو پار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔

اب دوسرا فرد ہے طالب۔جب تک وہ مرشد کی تقلید میں خود کو خاک نہیں کرے گا تب تک شاگرد بننا یا طالب بننا بھی ممکن نہیں۔اناج کے دانے کی طرح خود کو خاک نشیں کرے گا تو ہی کشتِ حیات ہری بھری ہو گی۔طالب کو مرشد پر کامل یقین رکھنا ہوتا ہے کہ وہاں سے وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹے گا۔مرشد کے قدموں کی دھول بن جانے میں ہی اس کی بقاہے۔جہاں طالب نے اس راز کو جان لیا کہ کہ فنا میں ہی در حقیقت بقا کا راز مضمر ہے وہیں وہ کامیاب ہو گیا۔طالب بننا بھی سعادت ہے جسے مرشد کی نظرِ کرم نصیب ہو۔تاریخ میں ہزاروں مرشد اور طالب گزرے ہیں مگر زمانے نے اسی کو یاد رکھا ہے جو طلب میں حد سے بڑھ گیا اور اس نے مرشد کے فیض کو سمیٹ لیا۔اطاعت کا ایک اصول استقامت ہے۔طالب بن جانا بھی سعادت ہے اور سچے طالب کا مقام پا لینا بھی کامیابی ہے۔اس نکتے کو شاعر کی نظر سے دیکھتے ہیں

فکر کر تعمیرِ دل کی وہ یہیں آ جائے گا
جب مکاں بن جائے گا خود ہی مکیں آ جائے گا

یعنی دل میں مرشد کو بسانے کی شرط یہ ہے کہ پہلے دل کو مکاں بنایا جائے۔مستقل مزاجی اور خلوص ِدل سے طالب بنا جائے۔کنویں کی طلب پیاسے کو کھینچ کر لاتی ہے۔وہ طلب پیدا کی جائے تو دل کی بنجر زمیں مرشد کی رضا سے ضرور سیراب ہوتی ہے۔

یہاں ایک اور نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ طالب سے ایک کامل طالب بننے کے بھی درجات ہیں۔ایک سچا اور کھرا طالب درحقیقت ایک عاشق ہی ہوتا ہے جو بس اپنے مرشد کی رضا چاہتا ہے۔ایک کامل طالب کون ہوتا ہے اس کا جواب دینا ذرا مشکل ہے لیکن وہ طالب خوش نصیب ہے جسے مرشد کی دعا نصیب ہوئی ہو۔کیوں کہ مرشد کے فیض سے ہی طالب کی نظر حق آشنا ہوتی ہے اور باطل کے پردے چھٹ جاتے ہیں۔

ناز دہلوی نے کیا خوب کہا ہے

حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے
نظر حق آشنا ہوتی ہے پردہ دل سے اٹھتا ہے

اگر کوئی شخص سچا طالب بن جائے اور اسے مرشد کی اطاعت نصیب ہو جائے تو اس سے بڑھ کر مقدر کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

سحر شعیل

One thought on “میرے ہر شعر کا عنوان ہے مرشد۔ | تحریر : سحر شعیل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link