شیخ صاحب کا چلہ میاں صاحب کی واپسی ۔ || تحریر : ارشد قریشی
اکتوبر کا مہینہ بھی پاکستان کی سیاست میں اہم مقام رکھتا ہے ۔ نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ، مشرف کا اقتدار پر قبضہ، محترمہ بے نظیر بھٹو پر کراچی میں حملہ ، نواز شریف کی واپسی اور شیخ رشید کا منظر عام پر آنا۔ شیخ رشید احمد ایک منجھے ہوئے سیاستدان مانے جاتے ہیں اور کئی حکومتوں میں وہ اعلیٰ منصبوں پر فائز بھی رہے ہیں ۔ شیخ رشید کا منظر سے غائب ہونا اور پھر نواز شریف کی واپسی سے چند گھنٹوں پہلے منظر عام پر آ جانا تو حیران کن تھا لیکن ان کا کوئی پریس کانفرنس نہ کرنا اور تحریک انصاف سے تعلق ختم کرنے کا اعلان نہ کرنا بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کیوں کہ شیخ رشید اپنی اکلوتی پارٹی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں نہ صرف سربراہ ہیں بلکہ شائید اس کے واحد سرگرم کارکن بھی وہی ہیں ، لہذا ان کی پریس کانفرنس بنتی ہی نہیں تھی جب کہ شیح رشید ۰۹ مئی کو رونما ہونے والے واقعات کے روز غالباً ملک سے باہر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کئی بار ان واقعات کی مذمت کی تھی بلکہ اس پر رنجیدہ بھی تھے ۔ میرا نہیں خیال کہ شیخ رشید سیاست چھوڑنے یا اپنی پارٹی ختم کرکے کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے اور انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ ان کا اپنا ووٹ بینک موجود ہے اور وہ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ میں نسلی اور اصلی ہوں۔
شیخ رشید اکثر جوشِ خطابت میں کہا کرتے تھے کہ نون سے شین نکلے گا یہ ان کی خواہش تو ہوسکتی تھی لیکن کبھی بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آیا اور اب بھی ایسی کوئی صورت نہیں ، ممکن ہے یہ بات شیخ رشید اس لیے کہتے ہوں کہ انہوں نے نواز شریف کی پارٹی سے علاحدگی اختیار کرکے اپنی ایک پارٹی قائم کرلی تھی تو اس وقت نون سے نکلا شین شیخ رشید کے حواس پر سوار ہو۔
خیر سے نواز شریف تیسری بار اپنے وطن لوٹیں ہیں بہت سی پیش گوئیاں ، افواہیں اور ڈیل کی صدائیں جاری ہیں ۔اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاں یہ میری ذاتی رائے ہے کہ میاں صاحب کسی بھی طریقے سے وطن لوٹیں ہوں مگر ان کی لوٹنے کا وقت کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ موجودہ حالات میں میاں صاحب خود بھی چاہیں گے کہ فوری عام انتخابات نہ ہوں میاں صاحب کو عوام کی زہن سازی کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہوگا کیوں کہ پہلے میاں صاحب کے مقابلے میں روایتی حریف پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہوا کرتی تھی جو اپنی حکومت کی کارکردگی یا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے بھرا انتخابی منشور لے کر عوام کے درمیان جاتی تھی جب کہ اب اگر پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملتی ہے تو سامنے ایک اور جماعت موجود ہوگی جو اپنا مدعا لے کر عوام کے درمیان موجود ہوگی۔