تشدد کا معاوضہ اور جج کی بے حسی۔|تحریر: سعدیہ معظم

سرگودھا  میں جج  کی بیوی کے ہاتھوں قریب المرگ پہنچنے والی ملازمہ کو شدید انفیکشن, دونوں ہاتھ کئی مہینے پہلے ٹوٹ چکے ہیں ۔ ڈاکٹرز خون میں انفیکشن ملنے کے بعد کینسر کے ٹیسٹ  لےرہے ہیں ۔جج کی بیوی گرفتار ہوئی نہ اس نے ضمانت حاصل کی۔

مبینہ طور پر جج صاحب نے ملازمہ کی والدہ سے رابطہ کرکے معاوضہ  لینے اور معاملہ ختم  کرنے کی پیش کش کی۔   معاشرے میں اس خبر نے بچی کوانصاف کےحصول کےلئے ایک شور بپاکررکھاہے سب کا پُرزور مطالبہ ہے کہ بچی پرتشدد کرنے والے ذمہ داران گرفتار ہوں اور انہیں سزا ملے۔کیا یہ صرف ایک واقع ہے ؟یا پھر معاشی مسائل کےتناور درخت کا ایک پکا پھل؟؟؟

غریب کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے سے نہیں گھبرایا ،کیوں ؟کیوں کہ اس نے کبھی ان بچوں کی پیدائش کے بارے میں سوچاہی نہیں وہ سوچ بھی کیسے سکتاہے ،سوچنے کو اور بہت کچھ ہے نا اس کے پاس۔

صبح سویرے میونسپلٹی کے نلکے سے گھر کے حمام بھرنا اگر بیت الخلاء گھر میں ہے تو ٹھیک ورنہ وہاں بھی لائن میں لگنے کی فکر۔

ان ضرورتوں سے فارغ ہوکر روکھی سوکھی روٹی اور قہوہ چائے سے ناشتہ کرنا اور پھر حصول روزگار کی تلاش پر نکل جاناٹیکسی یارکشہ ڈرائیور ہے تو اسٹاپ پرسواری کاانتظار اگر گھوڑے یاگدھا گاڑی ہے تو مال  برداری کاانتظار،مزدورہے تو دہاڑی کاانتظار ۔۔۔دن بھر سرد گرم موسم کی پرواہ کئے بغیراسی بھاگ دوڑ میں دن نکل جانا۔

شام کو گھر واپسی پر آمدن سے کچھ پیسے گھر کےسودا سلف کے لئے خرچ کرنے پر بھی کئی مرتبہ سوچتاہے کہ ایسا کیاخریدے جوکل کےلئے کچھ پیسے بچ جائیں۔

گھر پہنچے تو بجلی نہیں یاپھر والٹیج اتنا کم کہ پنکھا سُر سُر کررہاہے ۔نہانے کوکھلا پانی میسر نہیں ،گیس ہے یالکڑی پر روٹی پکی ،دھواں بھرا سالن کچی پکی روٹی سے پیٹ بھر کربستر پر کمرسیدھی کرنے لیٹے اور تھکن سے نیند آگھیرے ۔گھر میں ٹی وی نہیں ہے یا اگر ہے تو تفریح کےلئے طلاق دلاتے ڈرامے کےعلاوہ کچھ اور نہیں ۔اب لے دے کے اس کے پاس زندگی کاایک ہی مزا ہے کرنے کو اور وہ ہے سیکس ۔تو سیکس کے علاوہ اس کے پاس کوئی سستی ترین تفریح اور سکون موجود نہیں ۔ اس تفریح وسکون سے ہٹ کرسوچنا اس کےلئے ممکن نہیں ۔اس مفت کی تفریح سے جمع شدہ بچوں کے بارے میں کبھی اس نے سوچا ہی نہیں نا اسے سوچنے کی فرصت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پھر کون سوچے گا ؟؟؟

جی ہاں ! وہ سوچے گا جسے آپ ووٹ دیتے ہیں ،جسے آپ ٹیکس دیتے ہیں جسے آپ اپنی بجلی کے بلوں میں کنڈے ڈالنے والوں کا بل دیتے ہیں ۔

آج بچی کے ماں باپ معاوضہ لےکر تھوڑے دنوں میں اس واقعہ کوبھول جائیں گے اور بچی کے صحت مند ہونے پر اسے دوبارہ کام پر لگادیں گے ۔

تو سزا وار کون ہے ؟وہ لوگ جو بچی کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے یا وہ ماں باپ جواپنی تفریح وسکون کے چکر میں بچوں کی بھیڑ جمع کرتے رہے یہ سوچے بنا کہ ان کا پیٹ کیسے پالا جائے گا یا    پر بے حس نظام ۔۔۔۔!

غریب تو کبھی ان بچوں کےلئے نہیں سوچے گا لیکن اس نظام کوچلانے والوں کواس گھٹن زدہ نظام کوبہتر بنانے کےلئے ناصرف سوچنا پڑے گا بلکہ عملی اقدامات اٹھانا پڑیں گے ۔ان تبدیلیوں کو عملی جامع پہنا کرہی اس طرح کے پرتشدد واقعے کے ساتھ ساتھ بچواور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کوبھی روک سکتی ہے۔

آپ کم از کم اتناکردیں کہ مفت کلینک میں آگاہی پروگرام کےلئے ٹیمیں بنائی جائیں ،آبادی کوکنٹرول کرنے کےلئے مفت مانع حمل فراہم کیاجائے ۔

تفریح کے مواقع پیدا کئے جائیں ،ضروریات زندگی ہرگھر میں موجود ہو ،تعلیم نسواں کابندوبست کیاجائے،ورنہ غریب آدمی اپنی فکرمعاش کےعلاوہ کبھی کچھ اور نہی سوچے گا ،اس لئے نہیں کہ وہ سوچنا نہیں چاہتا بلکہ اس لئے کہ وہ سوچنےقابل نہیں رہتا ۔

اب بھی اس غریب کےمسائل حل نہ ہوئے تو معذرت کےساتھ  ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور میں اور آپ انصاف کےٹرینڈ ہی چلاتے رہیں ۔

SM
سعدیہ معظم

سعدیہ معظم کی مزید تحریریں پڑھیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share via
Copy link